پچھلی دود ہائیوں کے عرصے میں ہماری سوچ میں بڑی مثبت تبدیلی آئی ہے’ اب ہم نے حق بات کہنے کا سلیقہ اپنایا ہے‘ مثلاً آج سے 19سال پہلے جب امریکہ نے سوویٹ یونین کی شکست کے بعد دنیائے اسلام کو ہدف بنایا تو اس سازش میں سب سے پہلے پاکستان شامل ہوا۔نائن الیون کے واقعے کو بہانہ بنا کے پہلے افغانستان کو سبق سکھانے کا فیصلہ ہوا۔ اس وقت کے امریکی ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ رچرڈ آرمیٹیج نے جنرل مشرف کو ٹیلیفون کیا اور بتایا کہ وہ افغانستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور پاکستان کو ان کا ساتھ دینا لازم ہے اور سات شرائط کو بھی ماننا ہے ورنہ تمہارا حشر نشر کر دیا جائے گا۔ جنرل مشرف نے سات شرائط بھی مان لیں اور امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان کے خلاف حملے میں شریک ہونے کا فیصلہ بھی کر لیا۔یہ اہم فیصلہ کرنے کے بعد جنرل مشرف نے ملک کے صاحبان الرائے‘ دانشوروں، سیاستدانوں اور اہم سفارت کاروں کو دعوت دی۔ تین کانفرنسیں منعقد ہوئیں جن میں چالیس سے پچاس معتبر شخصیات نے شرکت کی۔ تیسری کانفرنس 23 ستمبر 2011ء کو اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا۔جنرل مشرف نے تقریبا تین گھنٹے تک اپنے اس اہم فیصلے کی منطق بیان کی۔ میں تنگ آگیا اور بولا‘ ’’جناب صدر‘ اجازت ہو تو میں کچھ عرض کروں۔‘‘ یس سر‘آپ ضرور بولیں۔’‘‘ میں نے بولنا شروع کیا:
’’جناب صدر‘ آپ نے بدترین فیصلہ کیا ہے جس کے پاکستان کی سلامتی پر خطرناک نتائج مرتب ہوں گے۔ بہتر ہوگا اگر آپ مشورہ کر کے ایک سرخ لائن کا تعین کر لیں کہ :
ہم امریکہ کا ساتھ دینے میں اسی حد تک جائیں گے‘ اس سے آگے نہیں جائیں گے۔ایک اہم بات کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اس جنگ میں طالبان جیتیں گے‘ امریکہ ہار جائے گا۔(لوگ ہنس پڑے)۔ بے شک امریکہ افغانستان پر قبضہ کر لے گا۔لیکن اس کے بعدوہ ہماری طرف پلٹے گا۔ ان سرحدی علاقوں کے عناصر کی سرکوبی کا مطالبہ کرے گاجو روسیوں کے خلاف افغانیوں کی جنگ آزادی کے لئے مدد فراہم کرتے رہے ہیں۔ جنگ ہم پر پلٹ دی جائے گی۔آپ نے یہ فیصلہ کر کے ہزاروں شہیدوں کے خون کا سودا کیا ہے جس طرح جنرل ضیاء نے 1988ء میں روسی انخلا کے بعد امریکی سازش کا حصہ بن کے افغان مجاہدین کو اقتدار سے محروم رکھا تھا جوخانہ جنگی کا سبب بنا۔ انہی کی طرح آپ کو اللہ کیا سزا دے گا‘ دنیا دیکھے گی۔جنرل مشرف نے کچھ کہنا چاہا لیکن حلق میں الفاظ اٹک گئے۔ کانفرنس ختم ہو گئی۔ دکھ کی بات یہ تھی کہ ان تینوں کانفرنسوں میں شامل کسی اور نے ان کے فیصلے سے اختلاف نہیں کیا۔یہ ایک المیہ تھا جواب ایک اچھی روایت میں بدلتا نظرآ رہا ہے۔ابھی کل کی بات ہے کہ امریکہ‘ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے چند معتبر تجزیہ نگاروں نے حق کی بات کرنے کا حوصلہ دکھایا ہے۔ماشاء اللہ ’’بالاکوٹ کے واقعہ کے دو ہفتے سے بھی کم عرصے میں پاکستان کی کامیابی اور برتری کے لمحے ہماری نااہلی کی وجہ سے اپنی افادیت کھوتے جا ر ہے ہیں۔امریکہ نے بھرپور طریقے سے بھارتی حملے کی حمایت کی ہے۔ مائیک پومپیو نے بالاکوٹ پر بھارتی حملے کو جائز قرار دیا ہے۔ ان کے صحیح الفاط یہ تھے: ’’پاکستانی وزیر خارجہ قریشی سے بات کرتے ہوئے ان سے کہا ہے کہ پاکستان میں موجودجیش محمد اور اس جیسی دوسری دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بامعنی کاروائی کی جانی چاہیئے۔وزیرخارجہ نے مجھے یقین دلایا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بھرپور کاروائی کی جائے گی اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی میں کمی لانے کے لئے اقدامات جاری رکھے جائیں گے۔جبکہ پاکستان نے صاف صاف الفاظ میں کہا ہے کہ بولٹن نے پاکستانی اقدامات کی تعریف کی ہے۔‘‘
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی ریاست کا کوئی واضح نظریہ ہی نہیں ہے کہ وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اورکیوں۔ جیش محمد کے خلاف پاکستان کیوں کاروائی کر رہا ہے‘ کیا اس سے بھارت کو مطمئن کرنامقصود ہے یا اس طرح سے عالمی مالیاتی منڈ ی کو خاموش کرانا ہے‘یا محض مائیک پومپیو کے تعریفی کلمات کو محفوظ بنانا۔ جہاں تک جیش محمد کا تعلق ہے توا نہیں معلوم ہے کہ بالا کوٹ واقعے سے پہلے ان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی گئی۔‘‘’’کیوں امریکہ (اور اسی طرح فرانس‘ جرمنی اور برطانیہ) نے بالاکوٹ پر بھارتی حملے کی حمایت کی ہے۔ ان بڑی طاقتوں کی جانب سے بین الاقوامی قوانین اور ایک ایٹمی قوت کی سرحدی خلاف ورزی کی حمایت کیوں کی جارہی ہے۔ان ممالک کی طرف سیاسی قسم کی ذاتی پسند پر مبنی حمایت کے خلاف پاکستان کونسے اقدامات اٹھا رہا ہے۔بالاکوٹ کے واقعہ کے دو ہفتے سے بھی کم عرصے میں پاکستان کی کامیابی اور برتری کے لمحات ہماری حکومتی نااہلی کی وجہ سے سمٹتے جا رہے ہیں۔ہمارے سپاہیوں اور پائلٹوں کی بہادری اور جرات کو ضائع
ہونے دیا جارہاہے۔ ہمارے سپاہی اور عوام کہیں زیادہ تعریف کے مستحق ہیں۔ امریکہ‘ برطانیہ اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک نے بھارت کو مزید جارحیت سے باز رکھ کر پاکستان سے یہ یقین دہانی لی ہے کہ جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسی تنظیموں کا مسئلہ ہمیشہ ہمِیشہ کیلئے حل کیا جائے گا۔ اب جو لوگ ان تنظیموں اور موجودہ حکومت کی استعداد سے واقف ہیں‘ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور دوست ممالک کی توقعات کے مطابق یہ مسئلہ حل کرنا کتنا مشکل کام ہے اور ان سے نمٹتے وقت اگر معمولی سی بھی غلطی ہوگئی تو اس کے کس قدر بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ تبھی تو جاننے والے جانتے ہیں کہ آزمائش ختم نہیں ہوئی بلکہ اصل آزمائش تو اب شروع ہوئی ہے۔ ماضی میں ہماری حکومتیں یہ جھوٹا تاثردیتی رہی ہیں کہ پاکستان کی مرضی کے بغیرڈرون حملے ہو رہے ہیں۔ یہ ڈرامہ کئی سال تک چلتا رہا۔ اس منافقانہ پالیسی کی وجہ سے بھارت جیسی قوتوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھنے لگی کہ پاکستان تو اپنی سرزمین پر باہر کی کاروائیوں کو برداشت کر لیتا ہے۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے لئے امریکہ کی کاروائی اور اس حوالے سے پاکستان کے اس موقف کہ یہ کاروائی بھی پاکستان کی اجازت کے بغیر ہوئی‘ سے اس ذہنیت کو تقویت ملی اور بھارت نے پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کا فیصلہ کیا۔
آج پاکستان کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے جائیں تو اسرائیل اور بھارت کا پاکستان کے خلاف اتحاد ختم ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ دوستی کا مشورہ کون دے رہا ہے؟ جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہر قیمت پر ایران کو عراق‘ شام‘ لبنان اور یمن سے نکالنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے امریکہ نے سعودی عرب اور کچھ دیگر خلیجی ریاستوں کا اسرائیل کے ساتھ اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل سعودی صحافی وابام الانازی نے عربی اخبار ’’خلیج‘‘ میں ریاض میں اسرائیلی سفارتخانے کے لئے ’’ہاں‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا کہ سعودی عرب کو مغربی یروشلم میں اپنا سفارتخانہ کھولناچاہئے اور اسرائیل کو ریاض میں سفارتخانہ کھولنا چاہیئے کیونکہ یہودی تو ہمارے کزن ہیں جبکہ ایرانیوں اور ترکوں سے تو ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں۔لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ مشرق وسطی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان طاقت کی رسہ کشی میں اسرائیل کو سعودی عرب کے اتحادی کے طور پر سامنے لایا جا رہا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پاکستان کو ایران کے خلاف تشکیل دیے جانے والے ایک نئے اتحاد میں شامل کر نے کی تیاری ہے۔ ‘‘یہی وہ قدریں ہیں جن کے لوٹ آنے کا ہمیں انتظار تھا۔سوشل میڈیا صحیح معنوں میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ مستحکم اور روشن پاکستان کی بنیاد یہی ہے۔
ہماری روایت ’’حق گوئی و بیباکی‘‘
Mar 16, 2019