امریکہ طالبان امن معاہدہ نے ہندوستان سمیت دیگر پاکستان دشمنوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں اور اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ایک محفوظ افغانستان میںہی پاکستان کی سلامتی کا راز مضمر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ ڈیل کو سبو تاژ کرنے کیلئے بیرونی طاقتیں مسلسل متحرک ہیں ۔جب ابھی یہ معاہدہ طے ہی پایا تھا تو کابل میںحملہ کروادیا گیا جس میں 29 معصوم افراد کی ہلاکتیں ہوئی اور اس تخریبی کارروائی پر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا گیاکہ کسی طرح رونلڈ ٹرمپ اپنا فیصلہ بدل لیں لیکن ایسا نہ ہو سکا اور مخالفین کو منہ کی کھانا پڑی اس دوران امریکی وزیر دفاع کابیان ( حملہ بڑے شہروں میں نہیں ہوا ) نے ان عناصر کی امیدوں پر پانی ہی پھیر دیا ۔ بھارت کے اوسان خطا ہونے کے بہت سے اسباب ہیں جن کی وجہ سے وہ چاہتا ہے کہ امریکی فوج یہاں سے نہ جائے۔ ایک تو اس نے افغانستان میں 4.2 بلین ڈالرزکی افغانستان میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے کابل ، قندھار اور مزار شریف میں قونصل خانے کھول رکھے ہیں ۔ اپنے 700 انجنیئرز لوگوں کو ٹریننگ دینے کیلئے بھیج رکھے ہیں دوسری جانب اسے یہ بھی خوف لاحق ہے کہ افغانستان کے بعد مجاہدین کشمیر کا رخ نہ کر لیں اور اسے کشمیر سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ اس سلسلے میں بھارت کو مسلمانوں کے بڑے دشمن اسرائیل کی آشیر باد بھی حاصل ہے۔مگر دو دہائیوں کی اس نام نہاد جنگ میں اربوں ڈالر جھونک کر اور اپنی فوج کو جانی و مالی نقصان کروانے کے بعد امریکہ یہ جان چکاہے کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت سکتا اس لئے یہاں جانے میں ہی عافیت سمجھی ۔ دراصل امریکہ کیلئے افغانستان ایک دلدل ثابت ہوا جس میں وہ دھنستا چلا جا رہا تھا ویسے بھی صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران اپنے لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان سے اپنی فوج کو نکال کر انہیں تحفہ دیں گے اور انہوں نے اپنا قول بخوبی نبھایا۔ حالیہ اقدامات سے رونلڈ ٹرمپ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اینٹی اسٹبلشمنٹ ہیں اس لئے انہوں نے جو کیا وہ پینٹا گون کے برعکس کیا ۔ شام ، شمالی کوریا اور عراق میں بھی انہوں نے جارحانہ رویہ اپنانے سے گریز کیا اور اپنے عمل سے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ معاملات کو بگاڑنے کے بجائے انہیں حل کرنا چاہتے ہیں ۔
اشرف غنی اور سابق چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ دونوں کا بیک وقت ملکی صدر کے عہدے کے حلف اٹھانا سوائے جگ ہنسائی کے کچھ نہیں ۔اگرچہ علاقے میں سیاسی رسہ کشی عروج پر ہے دونوں سیاسی لیڈر ملکی اقتدار کیلئے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہیں ، مقصد دونوں کا ایک ہی ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح امن معاہدے کے نفاذ میں رکا وٹیں کھڑی کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے وہ ہر نہج پر جانے کو تیا ہیں ۔ حالیہ صداتی انتخابات کا ڈھونگ رچایا گیا جس کا ٹرن آئوٹ نہایت مایوس کن رہا ۔ امریکی سرپرستی میں کروائے گئے الیکشن مسلط کئے گئے ہیں ۔ اگرچہ عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی میں حکومت کے حصول کی دوڑ لگی ہوئی ہے لیکن آپ نے دیکھا کہ ٹرمپ نے بھی اشرف غنی کو مبارکباد دی اور وزیر ا عظم عمران خان نے بھی اشرف غنی کو ہی صدارتی عہدہ سنبھالنے پر تہنیت کا پیغام بھیجا۔ ادھرکابل حکومت کی تو یہ پوزیشن ہے کہ وہ خود امریکہ رکے رحم و کرم پر ہیں ٹرمپ نے جب اشرف غنی کی دکھتی رگ پر پیر رکھا تو طالبان قیدی رہا کرنا پڑے۔ تاہم صدارتی الیکشن کے نتائج نے سیاسی صورتحال کو مزید بگاڑنے میں کسر نہیں چھوڑی ۔حکمت یار بھی اس رزلٹ کو مسترد کر چکے ہیں اور الیکشن کمیشن کے مشکوک کردار کو بھی یوں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ افغانستان کو تقسیم کرنے کی مذموم کوششیں جاری ہیں اور اس کیلئے سیاسی نظام کو تختہء مشق بنایا گیا ہے کہ ایسے حالات پیدا کر دئے جائیں کہ دنیا یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ مذکورہ امن ڈیل ناکام ہو گئی ہے اور اس کے تانے بانے ماضی سے جوڑے جا رہے ہیں جب سوویت یونین کی شکست فاش کے بعد افغانستان کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا تھا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں موجود سیاسی گروپوں میں اقتدار کی نئی جنگ شروع ہو گئی جس کے باعث علاقے کی ترقی کا خواب شرمندہء تعبیر نہ ہو سکا ۔ اس وقت جب جذبہء ایمانی سے لبریز افغان طالبان نے خود سے کئی گنا بڑی منظم عسکری قوت روس کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ مگر سیاسی افغانی دھڑے باہم دست وگریبان ہو گئے جن کے پاس پیسے کی فراوانی تھی اور ہر گروپ کے پاس اپنی اپنی فوجی قوت بھی موجود تھی۔حالانکہ اس وقت افغان امن معاہدہ ساتوں گروپوں کے سربراہان کی موجودگی میں خانہ کعبہ میں طے پایا گیا تھا اور اس معاہدے کے وقت میں بھی وہاں موجود تھا ۔ افسوس اس معاہدے کی پاسداری کا لحاظ نہیں رکھا گیا بلکہ حکومت حاصل کرنے کی حرص نے افغانستان کو مزید کمزور کر دیا جس سے بیرونی قوتوں کو موقع مل گیااسے ریشہ دوانیوں کا مرکز بنا دیا گیا اور خمیازہ غریب مفلوک الحال بے چارے افغان شہریوں کو بھگتنا پڑا ۔
لیکن اب حالات بہت مختلف ہیں افغانستان میں امریکہ نے جس سے مذاکرات کئے وہی طالبان طاقت کا اصل سر چشمہ ہیں ۔افغان حکومت کی امریکہ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ۔ اگر امریکہ امداد بند کردے تو اشرف غنی کی حکومت کا کیا بنے گا جس کے باڈی گارڈ کا خرچہ بھی امریکہ اٹھا رہا ہے ۔ ان کے پاس اپنی فوج کو تنخواہیں دینے کیلئے بھی پیسے نہیں ہیں ۔ عوام کے لئے شہری سہولیات ندارد ہیں ۔ نہ صرف سیاسی حالات دگر گوں ہیں ۔ سماجی و معاشرتی انفراسٹرکچر بھی نیست ونابود ہو چکا ہے ۔ چنانچہ افغانستان کی موجودہ مجموعی سیاسی ، معاشی و سماجی ڈھانچے کی ابتر صورتحال کا غیر جانبدارانہ مشاہدہ کے بعد میری اقوام عالم سے التماس ہے کہ اس تباہ حال ملک کی حالت زار پر توجہ دے اور اس کی از سر نو تعمیر میں اپنا کردا ادا کرے ۔ میری برادر ملک ترکی سے بھی مودبانہ گزارش ہے کہ وہ آگے بڑھے اور افغانستان کو سنوارنے میں میں اپنا حصہ ڈالیں۔ان 48 ملکوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ اب آئیں اور افغانستان کی مدد کریں انہیں سول معاملات بخوبی چلانے کیلئے وسیع پیمانے پر فنڈز مہیا کئے جائیں اور انہیں یوں بے سہارا نہ چھوڑا جائے۔ یہ وہی ممالک ہیں جنہوں نے اس بدحال ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔ لیکن تاریخ کا انصاف دیکھیئے کہ کس طرح عالمی سپر پاور کو جدید ٹیکنالوجی سے نابلد غیور و جری طالبان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ۔ درحقیقت طالبان کی لڑائی روس یا امریکہ کے خلاف نہیں بلکہ وہ نظام کے خلاف نبرد آزما ہیں اور جوں جوں افغانستان کے سیاسی گروہ کمزور پڑتے جائیں گے تو دوسری جانب بے شک طالبان کی سیاسی قوت میں بتدریج اضافہ ہوتا جائے گا ان شاء اللہ مستقبل میں افغان طالبان کی حکومت بنے گی۔ اصل میں اللہ کے نظام کے قائم ہونے کا وقت قریب ہے ۔