فیصل آباد کو ان دنوں مرکزی مغربی پنجاب کہا جاتا تھا حافظ عبداللہ اور شمال مغربی پنجاب (پنڈی) سے کیپٹن عابد حسین مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تاہم انبالہ سے مولانا غلام بھیک نیرنگ مغربی پنجاب سے شیر شاہ جیلانی اور شمالی پنجاب سے نواب شیر علی پہلے ہی بلا مقابلہ منتخب ہو چکے تھے ۔ فتح لاہور کے باعث اور فاتح لاہور ایم ایس ایف اور مولانا ظفر علی خان نے پورے برصغیر میں طوفانی دوروں سے مسلم لیگ کی تحریک کو بام عروج پر پہنچا دیا جس کے باعث پورے ہندوستان میں سنٹرل اسمبلی کی کل تیس کی تیس مسلم نشستیں مسلم لیگ نے جیت لیں ۔
1940ء کے بعد برپا ہونے والی تحریک میں ایم ایس ایف کے ساتھ ساتھ حضرت قائد اعظم کے حکم پر جاری کر دہ مسلم جذبوں اور ولولوں کا واحد ترجمان اخبار نوائے وقت کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ نوائے وقت کے مدیرمرحوم حمید نظامی اور ان کے بھائی مجاہد پاکستان مرحوم مجید نظامی تحریکی کاموں میں مصروف بھی ہوتے اور نوائے وقت کی اشاعت بھی پوری تندہی اور بلند ہمتی سے کرتے رہے ۔ نوائے وقت ایک جانب مسلم لیگ کی تنظیم و ترتیب میں معاون تھا ۔ حضرت قائد کے فرمان کو مسلمانان ہند تک پہنچانے کا فریضہ ادا کرتا ۔ مسلم قو میں یکجہتی و اخوت کو فروغ دینے کی ذمہ داری پوری کرتا دوسری سمت تحریک پاکستان کی تاریخ کو محفوظ کرنے میں مصروف عمل رہا آج کی نسل کو تحریک حریت کی ہر گمشدہ تاریخ نوائے وقت اوراق میں دستیاب ہے جو یقینا کارعظیم ہے ۔ بلاشبہ نوائے وقت کے مدیر مکرم بزرگ گرامی مجید نظامی مرحوم تاریخ سازی کے عمل میں آخری دم تک گامزن رہے۔ 1945ء کے سنٹرل اسمبلی کے انتخاب کے بعد صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کا مرحلہ فروری 1946ء میں برپا ہوتا ہے اب مسلمانوں کے حوصلے بلند تھے ۔ہر طرف بیداری کی لہر نمایاںنظر آرہی تھی ۔ ہر سمت ایک ہی نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا ؟ لاالہ الااللہ ۔ سبز ہلالی پرچم کی حرمت مسلمانان ہند کو جان سے زیادہ عزیز تھی اس پر کٹ مرنے کے لئے کمر بستہ دکھائی دیتے تھے جس کے نتیجے میں مسلم لیگ نے پنجاب کی 86نشستوں میں سے 74پرکامیابی حاصل کی ساری جدوجہد میں کالج کے ہونہار طالب علم محمد مالک پیش پیش تھے۔ محمد مالک گوجرانوالہ کا رہنے والا تھا والدین حیات نہ تھے وہ اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ لاہور میں کالج کے قریب رہائش پذیر تھا لہٰذا کالج ہاسٹل میں ہونے والی ہر چھوٹی بڑی کارروائی میں حاضر وشامل ہوتا اسی لئے دوسروں سے زیادہ جذباتی اورمتحرک تھا ۔ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے مسلم لیگ کے ساتھ مل کر 10مارچ 1946ء کو عظیم الشان فتح کی خوشی میں جلوس نکالنے کا پروگرام بنایا ۔ جلوس لاہور کے مختلف علاقوں سے گزرتا ہوا سیکرٹریٹ پہنچا اس کے بعد رخ مزنگ کی جانب موڑ دیا گیا جلوس جب اسلامیہ کالج جو ان دنوں سناتن دھرم کالج کہلاتا تھا اور انتہا پسند ہندوئوں کے قبضے میں تھا پہنچا تو کالج کی چھت سے یک لخت خشت باری ہونے لگی جس سے بیشمار طلبہ زخمی ہوئے ایک اینٹ محمد مالک کے سر پر لگی جو جان لیوا ثابت ہوئی ۔ محمد مالک جمہوری جدوجہد کا پہلاشہید تھا جس کی موت نے پورے برصغیر میں کہرام مچادیا ۔ مسلمان گہرے رنج و غم کاشکار ہو کر غصے سے بے قابو تھے بہت ممکن تھا کہ ہندوستان میں مذہبی فسادات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے اس نازک صورت حال کو حضرت قائداعظم سے زیادہ کون بھانپنے کی صلاحیت رکھتا تھا ؟ آپ نے حالات کا دوراندیشی سے مطالعہ کرنے کے بعد مسلم قوم کو صبرو تحمل کی تلقین فرمائی ۔ آپ سمجھ رہے تھے اس موقع پر تدبر اور ہوشمندی کا ثبوت نہ دیا تو جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی عظیم کامیابیوں کو ہمارے دشمن اپنے ناپاک ہتھکنڈوں سے غارت کر دیں گے اور انگریز شورش و فسادزدہ ہندوستان کانگریس کے حوالے کر کے واپس چلے جائیں گے ۔ مسلم قوم ایک چھوٹی سی غلطی سے پھر غلامی کی طرف دھکیل دی جائے گی لہذا حضرت قائداعظم چند دنوں میںلاہور آئے اور مادر ملت فاطمہ جناح کے ہمراہ شہید محمد مالک کے مزار پر فاتحہ خوانی کیلئے تشریف لے گئے ۔ آپ کی فراست مدلل موقف کے سبب انگریز ہندو اور دوسری مسلم لیگ مخالف قوتوں کو پسپاہونا پڑا اور دنیا کے نقشے پر پاکستان نام کی ریاست معرض وجود میںآئی ۔
آج مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنان کو شاید علم ہی نہیں کہ جمہوری عمل میں جان دینے والا پہلا شہید محمد مالک کہاں سور ہا ہے ؟ خدارا ! مسلم لیگی ہونے کے دعویداروں اور نظریہ پاکستان کے نگہبانوں سے گذارش ہے کہ حضرت قائداعظم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے 10مارچ 1946ء کو شہید ہونے والے عظیم مجاہد محمد مالک کے مزار واقع نزد مزار غازی علم دین میانی صاحب قبرستان لاہو رمیں شہید کے ایصال ثواب کیلئے ضرور تشریف لائیںکیونکہ محسن شناس قومیں ہی باوقار زندگی کی مستحق ہوتی ہیں۔
1945-46کا الیکشن ایم ایس ایف۔ مالک شہید
Mar 16, 2020