میں اَن پڑھ ہوں

مکرمی! میری انسٹیٹیوٹ کے پاس ہی لائبریری ہے اورلائبریری بھی ایسی آراستہ کہ دیکھ کے دل نہ بھرے۔ ایسے ایسے احباب علم فن کی نایاب کتب میسر تھی کہ ناچاہتے ہوئے بھی پڑھنے پر مجبور ہوئے۔ جن میں بڑے بڑے عالم، مصلح، نابغہ روزگار یعنی ولی، میر، ذوق، مومن، داغ، غالب، اقبال، فیض، پطرس، ابوالکلام آزاد، شہاب، زیدی اور بے شمار جن کے نام گننے بیٹھوں تو صبح سے شام ہو جائے۔ ہاں تو میں کہہ رہاتھا کہ آج کل پطرس کو پڑھ رہاہوں، ان کی مزاح نگاری کے چرچے سن رکھے تھے ،اب جب مطالعہ سے گزرے تو پتہ چلا کہ یہ تو نہایت سنجیدہ کار بلکہ پرکار کہنے میں مضائقہ نہ ہوگا۔ وہ ایسی شخصیات میں سے ایک جو کسی ملک و قوم کا فیس (چہرہ) ہوا کرتی ہے، اس قدر محنت شاقہ سے انہوں نے زندگی گزاری اور زندگی سے وقت چرا کے ادب کی خدمت کی ایسا سنجیدہ ادب جس میں انگریزی سے اردو تراجم تنقید کے ایسے ایسے مرقعے دیکھنے کو ملے کہ کیا کہئے انگریزی افسانے اور ناولٹ کو جس مہارت اور ہنرمندی سے تراجم میں ڈھالا، یہ انہی کا حصہ ہے۔ انہوں نے تقریباً تمام اصناف سخن پہ کام کیا۔ افسانے، مضامین، ڈرامے، ناولٹ، شاعری اور مشرق و مغرب کے ادب کے تقابلی جائزے المختصر انہوں نے باوجود نوکری کی مجبوریوں کے اس قدر سنجیدہ کام کیا۔مزاح بھی لکھا، مزاح لکھنا بھی اپنی جگہ ایک سنجیدہ کام ہی تو ہے مگر کسی ہمہ جہت شخصیت کو مجھ جیسے نالائق طالب علم کا فقط مزاح نگار ہی سمجھتے رہنا، نہایت زیادتی ہے ،اپنے ساتھ اور اس شخصیت کے ساتھ۔(نون عین صابر)

ای پیپر دی نیشن