مڈل کلاس عوام اور بزنس کلاس افسران

عالمی ادارہ برائے صحت (WHO)کے مطابق اس وقت روڈ ایکسیڈنٹ اموات کی بڑی وجہ بن چکا ہے اگر ان مسائل کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو2030تک روڈ ایکسیڈنٹ اموات کی ساتویں بڑی وجہ بن جائے گی۔’’پاکستان بیورو آف سٹیٹکس ‘‘کے مطابق پاکستان میں پچھلے دس سال میں پچاس ہزار سے زائد افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوئے ہیں۔ یہ تو وہ تعداد ہے جو باقاعدہ پولیس ریکارڈ کا حصہ ہے ،پاکستان میں ہر روز پندرہ لوگ ٹریفک حادثات کی وجہ سے جان سے ہاتھ سے دھو بیٹھتے ہیں، اسی طرح سالانہ نو ہزار کے قریب ٹریفک حادثات رُونما ہوتے ہیں جن میں پانچ ہزار کے قریب لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیںاور شدید نوعیت کے حادثات میں بعض زخمی زندگی بھر کے لئے اپاہج ہو جاتے ہیں اور معذوری کے روگ کے ساتھ بے بسی اور لاچاری کی کیفیت میں زندگی کے دن پورے کر رہے ہوتے ہیں۔ جانی نقصان کی علاوہ موٹر سائیکلز اور گاڑیوں کی صورت میں مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔عالمی مشاہداتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق پچانوے فیصد حادثات ڈرائیورکی لاپرواہی اور غلطی کی وجہ سے ہوتے ہیں ، پاکستان میں اسی فیصد ڈرائیوراور مسافر ضروری حفاظتی اقدامات اختیار نہیں کرتے ہیں ،ٹرانسپورٹرز حضرات جو نفع خوری کے عادی اور انتہائی طمع پرست ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں، وین ،منی مزدا یا بس غرض کوئی بھی سواری ہو’’ اوورلوڈنگ ‘‘تو جزو لازم بن چکا ہے ، نفع خور ٹرانسپورٹر سیٹیں مکمل ہونے کے بعد مسافروں کی ایک لمبی قطار کھڑے کیے بنا چلنے کا نام ہی نہیں لیتے مزید ازاں کوسٹر کی چھت پر سوار کرنا بھی امر لازم بن چکا ہے ،ہائی ایس ٹویوٹا والے چودہ سیٹر وین میں بائیس افراد سوار کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں اور رہی سہی کسر’’ ٹول بکس‘‘ پر دو مسافر بٹھا کر پوری کر دیتے ہیں ،فرنٹ سیٹ پر تین افراد کی’’ اوور لوڈنگ ‘‘کرنے سے ڈرائیور پوری مہارت سے گاڑی کو کنٹرول نہیں کر پاتا جو حادثات کا سبب بن رہا ہے ،شرمناک پہلو یہ ہے کہ درجنوں مسافروں سے بھری گاڑی کو چلانے والے ڈرائیور حضرات کی اکژیت کے پاس ڈرائیونگ لائسنس اور فٹنس سرٹیفکیٹ تک نہیں ہو تا ہے اگر کسی کا لائسنس بن بھی جائے تو سب جانتے ہیں کہ لائسنس کیسے حاصل کیا جاتا ہے ،یہاں پر قانون نافذ کرنیوالے محافظوں کی بات کی جائے تو لاہور کے وارڈن آئے روز کسی نہ کسی سے دست و گریبان نظر ہوتے نظر آتے ہیں،عام افراد کو بلا وجہ تنگ کیا جاتا ہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹرز کو ڈرائیونگ لائسنس ،فٹنس سر ٹیفیکیٹ اور روٹ پرمٹ چیک کرنا تو درکنار زائد کرایہ وصولی کی بھی کھلی چھٹی دے رکھی ہوتی ہے ۔رکشہ ،وین سے لیکر بس تک اکثر کمرشل گاڑیوں کی نمبر پلیٹس غیرنمونہ اور ٹیمپرڈہیں تاکہ آن لائن کیمرہ چالان سے بچ سکیں۔پبلک ٹرانسپورٹ ڈرائیور ز ان تمام قانون شکنیوں کے ساتھ دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ کمرشل گاڑیوں کے ڈرائیورز گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کے بعدایکسیلیٹر پر پائوں آتے ہی یہ اس ’’زمینی سواری‘‘ کو ہوا میں اڑانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں،اور یہی’’ اوووسپیڈ‘‘ حادثات کا اہم پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔یہ سب تکلیف دہ مناظر ہر روزہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں۔سرعام یہ ظلم و ستم ہورہا ہے لیکن انتظامیہ اور متعلقہ ادارے یہ سب دیکھنے والی بینائی سے قاصر نظر آتے ہیں لوگ مرتے ہیں تو مریں ، سب اچھا ہے کی رپورٹ ۔لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے ہاں پبلک ٹرانسپورٹرز کی اکژیت پڑھی لکھی تو دور کبھی سکول تک نہیں گئے ہوتے۔اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک کی طرف نظر دوڑائی جائے تو ہمیں ایک دو نہیں سینکڑوں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جہاں پبلک ٹرانسپورٹر کیلئے باقاعدہ تعلیمی ادارے ہیں جہاں ڈرائیور کنڈکٹر اور ہیلپر کو تعلیم و تربیت دی جاتی ہے ۔اس لیے وہاں ٹریفک حادثات کی تعداد پاکستان سے بہت زیادہ کم ہے۔ان حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں بھی شعبہ ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد کیلئے تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کیے جائیں اور وقتاً فوقتاًگاڑیوں کی فٹنس کی جانچ پرتال کو لازمی بنایاجائے اور روڈ سیفٹی کیلئے سڑک سے اگاہی کے بورڈ بھی نصب کیے جائیں تاکہ ٹریفک حادثات پر کنٹرول کر کے قمیتی جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکے۔
گھر سے نہا دھوکر صاف شفاف اجلے کپڑے پہن کر لوکل ٹرانسپورٹ کے ذریعے دفتر یا دوسرے شہر جانے والے مسافرجب منزل مقصود پر پہنچتے ہیں تب تک ’’اوورلوڈنگ‘‘ کے نتیجے میں مسافروں کی دھکم پیل سے اجلے کپڑے گرد الود ہوچکے ہوتے ہیں جبکہ چمچماتی پالش والے جوتے اس طرح گر دسے اٹے ہوتے ہیںکہ ابھی کسی کیچڑ سے نکالے ہوں۔ایسی حالت میں جب غریب عوام ان’’ بابوافسروں‘‘ کے پاس جاتے ہیں تو وہ ناک منہ بسور کر ملتے ہیں۔مگر المیہ ہے کہ ٹیکس دینے والے غریب عوام کو تو پبلک ٹرانسپورٹ میں زائد کرایہ دیکر بھی عزت سے سفر کی سہولت میسر نہیںجبکہ اسی غریب عوام کے ٹیکسوں سے شاہانہ زندگی گزارنے والے افسران پوری شان و شوکت سے ائیر کنڈیشنڈ دفاتر ،لگژری گاڑیوں اور بزنس کلاس جہاز کے مزے لوٹتے ہیں۔جب لوکل ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والے عوام اور شعبہ ٹرانسپورٹ سے وابستہ انتظامی افسران کی طرز زندگی میں اتنا فرق ہوگا تو کیسے ممکن ہے کہ شعبہ ٹرانسپورٹ میں تبدیلی آسکے۔

ای پیپر دی نیشن