پاکستان بننے سے لے کر آج تک پاکستان مختلف بحرانوں کا شکار رہا ہے۔ بحران پیدا کرنے والے تو ہیں لیکن مردِ بحران کوئی بھی نہیں ہے ۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری خاندانوں کی طرح وزارت عظمیٰ کو میوزیکل چیئر بنانے والوں نے ملک کو بحرانوں میں رکھا۔ لیکن اپنی اپنی مالی سلطنت اتنی وسیع کی کہ اُن دونوں خاندانوں کے علم میں نہیں ہے کہ پاکستان میں آج بھی پیدا ہونے والا شخص لاکھوں روپے کا قرض دار پیدا ہوتا ہے۔ 1980ء سے لے کر 2018ء تک ان دونوں خاندانوں نے عوام کو فٹ بال بنائے رکھا لیکن 2018ء کے الیکشن میں عمران خان نعرہ لگا کر اقتدار آئے کہ ان دونوں خاندانوں سے لوٹی ہوئی دولت میں ملک میں واپس لاؤں گا۔ لیکن وہ ایسا تو نہ کرسکے بلکہ ان سے رقوم نکالنے کے لیے اربوں روپے خرچ کر چکے ہیں۔ عمران خان نے کو اڑھائی سال میں عوام کو ایک ہی نعرہ سناتے سناتے گذار گئے اور لوگوں کے کان پک گئے کہ اپوزیشن NRO مانگتی ہے جبکہ نوازشریف کو لندن بھیج کر اور آصف علی زرداری کو اسلام آباد کی اڈیالہ جیل سے نکال کر کراچی بلاول ہاؤس میں پہنچا کر اُن کو NRO دیا گیااور عوام کو تحریک اعتماد کا ووٹ حاصل کرتے وقت یہ بتایا گیا کہ ان چوروں کو میں NRO نہیں دوں گا۔ جتنے بھی بڑے بڑے لیٹرے سیاسی خاندانوں کے چشم و چراغ ہیں وہ اب ملک سے فرار ہیں یا جیل میں ہیں۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ ان کے لیے جب تھانیدار والا تھرڈ ڈگری طریقہ استعمال نہیں ہوگا تو ان کے کروڑوں کے وکیل عدالتوں کو جَل دیتے رہیں گے۔ اور اب بھی اس چکر میں عدالتوں اور احتساب کرنے والوں کے ساتھ دستِ تعاون بڑھاتے ہیں۔ تو جو تھانیدار سائیکل چور کو چنے چبوا دیتا ہے اور رات والا چھتر دکھا کر سائیکل برآمد کرلیتا ہے یہی ان کا حل ہے۔ آل شریف اور زرداری خاندا ن 1980 سے لے کر 2018 تک بلا شرکت غیرے حکمران رہے ہیں۔ بیورو کریسی جو ان کی بھرتی کی ہوئی ہے وہ ان کی حامی ہے۔ کیونکہ خود بھی کھایا یہ اور بیوروکریسی کو عیش کروائی ہے۔ وہ اب بھی ان کا حکم مانتے ہیں۔ عمران خان اللہ آپ کو توفیق دے۔ نعروں کی بجائے آپ ملک دشمن لیڈروں کو سعودی عرب کے شاہی خاندان کی طرح جس طرح فائیو سٹار ہوٹلوں میں بند کر کے ان سے رقوم وصول کی تھیں ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کرو۔ ورنہ یہاں سے رقوم وصول کرنی مشکل ہیں۔ سینٹ کے الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کی کامیابی اور پھر صادق سنجرانی کا چیئرمین سینٹ بننا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ عمران خان نے دیکھ لیا کہ لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے اور یہ ڈکیت اس طرح قابو آنے والے نہیں تو انہوں نے ہی وہی حربہ استعمال کیا۔ جو ایک ’زرداری سب پر بھاری ، استعمال کیا تھا۔
سینٹ میں ناکامی کے بعد پی ڈی ایم منہ کے بل زمین پر گری ہے۔ بلاول بھٹو کا نعرہ کہ پنجاب کو آزاد کرائیں گے، سینٹ کی شکست میں دب کر رہ گیا ہے اور اب اپوزیشن اتحاد میں جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ مداخلت کرتے ہوئے نظر آئیں گی جبکہ ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن دن رات قومی اداروں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کہتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہے۔ مریم نواز اور نواز شریف نام چُن چُن کر لیتے ہیں۔ یہ تو وہ معاملات ہیں جو کہ ملک کو استحکام کی بجائے کسی اور طرف لے جارہے ہیں۔ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کریں۔ اپنے مشیر اور وزیر اپنے منتخب قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کو بنائیں۔ اپنے اتحادیوں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم ، جی ڈی اے اور دیگر پر اعتماد کریں۔ ان کو مرکز اور صوبوں میں نمائندگی دے کر ان اتحادیوں کے کارکنوں کو بھی ساتھ ملائیں۔ اسمبلی میں جو بھی کمیٹیاں بنائی ہیں ان میں اتحادیوں کو نمائندگی دیں۔ اتحادی اپنے آپ کو حکومت کا حصہ سمجھیں گے۔ اور جب بڑھ چڑھ کر کام ہوگا تو پھر دیکھیں گے کہ ن لیگ والے کس طرح ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اپنے اور اتحادیوں کے ورکروں کو تھانہ، کچہری اور دیگر اداروں میں عزت دیں۔ تو عثمان بزدار بھی اکیلا نہیں رہے گا۔ اور آپ کا خیال وسیم پلس والا کامیاب ہوسکتا ہے۔ چوہدری پرویز الہٰی نے جو کہ سینٹ کے الیکشن میں بلامقابلہ سینٹر کو منتخب کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ تمام سیاسی جماعتوں کا ان پر اتفاق ہے اس کا فائدہ عمران خان کو جاتا ہے۔ حالانکہ اپوزیشن تو حکومت سے بات چیت کیلئے تیار نہیں ہے۔