میں فسانے تلاش کرتا ہوں۔۔۔۔

مجھے بحیثیت وزیر پنجاب حکومت بہت سی معاشرتی اچھائیوں اور برائیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مجھے شام ڈھلنے کے بعد وزیر اعلیٰ کے آفس سے حکم ملتا ہے کہ ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے کا کنسرٹ الحمرأ ہال میں تھا جہاں پر بھگدڑ سے کچھ بیٹیاں حادثے کی نذرہو گئی ہیں آپ فوری طور پر سروسز ہسپتال جائیں ۔ جب میں ہسپتال پہنچا تو دیکھا کہ خوبصورت لباس میں ملبوس کچھ بیٹیاں سٹریچر پر سو رہی ہیں اور ان کے وارثان انھیں جگانے کی کوشش میں آنسو بہا رہے ہیں مگر اب وہ ہمیشہ کیلئے سو گئی تھیں۔ میرے آنسو مجھ سے سوال کر رہے تھے کہ کیا پاکستان اس لیے بنا تھا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں رات کو میوزک کنسرٹ منعقد ہوں اور اسلامی روایات کا گلا دبا کر ہماری نسلیں جہالت کے اندھیروں میں کھو جائیں ۔ یہ رات میں نے جاگ کر گزاری۔ اگلے دن کیبنٹ کی میٹنگ تھی اور میں کچھ تلخ سوالات وزیر اعلیٰ سے کرنے کیلئے بے تاب تھا۔ میٹنگ شروع ہوئی میں نے وزیر اعلیٰ کو واقعہ کی رپورٹ پیش کی اور سوال کیا کہ کیا پاکستان اس لیے بنا تھا کہ ہمارے جوان بیٹے بیٹیاں ایک بنچ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کریں۔ اللہ کے حکم کے برعکس اور محبوبِ خداﷺ کی تعلیمات کی دھجیاں اڑادی جائیں؟ پاکستان میں جو خرافات جڑ پکڑ رہی ہیں کیایہ وجودِ پاکستان پر سوالیہ نشان نہیں ہے؟
میرے مختلف تلخ سوالات پر وزیر اعلیٰ صاحب نے مجھے یہ کہہ کر خاموش کروانے کی کوشش کی کہ چوہدری صاحب "آپ طالبان نہ بنیں میں یہ ہمیشہ کہتا ہوں کہ اگر ہم نے خاص طور پر صاحبِ اقتدار نے آنکھیں نہ کھولیں تو ہم بے حیائی اور بے شرمی کی ایسی گھاٹی میں گر جائینگے جہاں سے نکلنا مشکل ہی نہیں شاید نا ممکن ہو گا۔ اور شاید پھر ان تعلیمی اداروں سے نکلنے والے بچے "میرا جسم میری مرضی "کے بے حیائی کے پرچم کو اٹھا لیں گے اور پھر ففتھ جنریشن وار کا یہ کاری وار ہماری اسلامی اور نظریاتی اساس کو بہا کر لے جائے گا۔
میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ اپنی جوان بیٹیوں کے ہاتھ موبائل فون نہ دیں۔ آج میری صرف ان غیرت مند پاکستانیوں سے درخواست ہے جو اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں وہ صرف ایک مرتبہ بہت سے نام نہاد تعلیمی اداروں میں جا کر اپنے بیٹے اور بیٹیوں کو ضرور دیکھیں اور پھر خود فیصلہ فرمائیں ۔بہر حال میری ترجیحات میں شامل ہے کہ مجھے زندگی میں اگر موقع ملا تو نشا ء اللہ Co-Educationکے اداروں میں ہر صورت بہترین اصلاحات لا کر چھوڑوں گا۔ ہمارے تمام حکمرانوں کی اپنی ترجیحات رہی ہیں اور وہ آنکھیں بند کر کے اقتدار کے سرپٹ دوڑتے گھوڑے پر سوار ہو کر معاشرے کے اندر دن بدن بڑھتے ہوئے ناسور کو شاید نظر انداز کیے ہوئے ہیں ۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ پاکستان اس بے حیائی کا متحمل نہیں ہو سکتا اور اسلامی روایات سے متصادم خرافات کو ختم کیے بغیر ریاستِ مدینہ کا تصور کرنا صرف ایک خواب ہی رہے گا۔ آج میرے ملک کے سیاستدان کیا کر رہے ہیں انکی منزل صرف اقتدار سے اقتدار تک ہے ۔ صرف اپنی ترجیحات کو پورا کرنا ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہی اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں ۔ جبکہ اہلیت اتنی ہے کہ کچھ نیشنل اسمبلی اور سینٹ کے ممبران کو ووٹ کاسٹ کرنا ہی نہیں آتا۔ اور شاید لیڈرانِ کرام بھی اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کیلئے ان غلطیوں کے مرتکب ہو کر کنڈیاں لگا کر بیٹھے ہیں ۔ جبکہ اب پاکستان کی ضرورت اور ترجیحات کچھ اور ہوں نہ کہ یہ گھسے پٹے لوگ۔ آج پاکستان میں ان محبِ وطن لوگوں کو اکٹھا ہونا پڑے گا جن کا مقصد صرف اور صرف پاکستان ہو ۔ اقتدار کے پجاریوں کی پاکستان کو ضرورت نہیں ہے اور نہ آزمائے ہوئے لوگوں کو ڈرائی کلین کر کے ملک پر قابض کروانے کی۔ پاکستان میں احتساب کیلے آخری موقع ہے۔ اسکے بعد کوئی پاکستان میں احتساب کا نام بھی نہیں لے سکے گا۔ پاکستان کی بنیادوں میں مریم جیسی کتنی بیٹیوں کا خون ہے اس کا احساس نہ کیا تو بربادی ہمارا مقدر بنے گی۔
ہمیں بہر حال یہ غور کرنا پڑے گا کہ کیا پاکستان صرف چند خاندانوں کیلئے بنا تھا جو پاکستان میں ہروقت کھیل تماشے کرتے نظر آتے ہیں ۔ میری سوچ بالکل کلئیر ہے اب پاکستان رہے گا یاپھریہ بہروپیے۔ 
میرا ایمان ہے کہ پاکستان قائم رہنے کیلئے بنا ہے ۔ جو لوگ چند دن کے اقتدار کیلئے پاکستان کو مشرقی پاکستان بنانے کی دھمکیاں دیتے ہیں وہ باز آجائیں اس لیے کہ پاکستان تمھارے باپ کی ملکیت نہیں ہے اور نہ تمھارا پاکستان پر کچھ لگاہے۔ صاحبانِ اختیار! "نظام بدلنا وقت کی ضرورت ہے ۔اگر ہم نے اس کو ترجیح نہ دی تو شاید وقت نظام کو بدل دے گا۔"
میں بہت سے ان سیاستدانوں سے کہنا چاہتا ہوں جوپاکستان سے محبت کرتے ہیں اور انھوں نے ہمیشہ نظریاتی سیاست کو ترجیح دی ہے اور وہ ہر جماعت میں موجود ہیں وہ ہمت کریں اور آئیں پاکستان کیلئے اپنا رول ادا کریں اور پاکستان کی زخمی روح پر مرہم رکھ کر سر خرو ہو جائیں ۔ مگر کیا کریں کہ :  
یہ شرطِ اُلفت بھی عجب ہے محسن 
میںپورا اترتا ہوں وہ معیار بدل لیتے ہیں 
آج پاکستان میں وکلاء اور ڈاکٹرز، عدالتوں میں ججز کی توہین سے لیکر سیاست دانوں کا دست و گریباں ہونا بڑھتی ہوئی بے حیائی ، ہٹ دھر می، تعلیمی اداروں میں اخلاقی پستی اور عورت مارچ جیسی اسلامی معاشرے سے متصادم خرافات جس کیلئے شاید فنڈنگ بھی کہیں اور سے ہو رہی ہے ۔یہ سب کچھ ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے ۔آنکھیں بند کرنے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ ہمیں ہر صورت اچھی اصلاحات لا کر پاکستان کو ان مشکل حالات سے نکالنا ہوگا۔ 
ہر سیاستدان تقریروں کی حد تک یہ ضرور کہتا ہے کہ زراعت ریڑھ کی ہڈی ہے مگر توجہ کوئی نہیں دیتا۔ پاکستانی قوم پریشان ہے اورمہنگائی کے ہاتھوں نیم بیہوشی کی حالت میں کہہ رہی ہے کہ :
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں 
اور کیا جرم ہے پتہ ہی نہیں 
اتنے حصوںمیں بٹ گیا ہوں 
مرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں
دَھن کے ہاتھوں بکے ہیں سب قانون
اب کسی جرم کی سزا ہی نہیں 
میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ آخری موقع ہے۔ ذمہ داران ِ چمن آنکھیں کھولیں اپنا رول ادا کریں اور یہ ضرور سوچیں کہ کیا پاکستان کیلئے خون کی ندیاں اس لیے بہائی گئی تھیں ۔ ۔۔۔
اس وقت اسی پر بات ختم کروں گاکہ :
میں فسانے تلاش کرتا ہوں آپ عنوان ڈھونڈ کر لائیں 
آئو بادہ کشوں کی بستی سے کوئی انسان ڈھونڈ کر لائیں 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن