کہتے ہیں کہ سچائی اگر مجسم شکل میں آتی تو وہ شیر کا پیکر ہوتا۔ اسی طرح وثوق سے کہا جا سکتا ہے اگر ناکامیاں اور نامرادیاں مجسم روپ دھارتیں تو وہ خیر سے ہمارا لاڈلا کرکٹ بورڈ ہوتا۔ کاردار، ائیر مارشل نور خان اور کسی حد تک جسٹس کارنیلس کے بعد کوئی ایک بھی ایسا چیئرمین نہیں گزرا جس نے کرکٹ کے معاملات کو ٹھیک طرح سے سمجھا ہو اور ملکی وقار میں اضافہ کیا ہو۔
کاردار ایک اصول پرست انسان تھا لیکن وہ بھی حکومتی مصلحت پسندی کا شکار ہو گیا۔ کھلاڑیوں کے ساتھ اُس کا اصولی اختلاف ہوا پہلے تو اسے ڈٹ جانے کا ’’تھاپڑا‘‘ مارا گیا لیکن جب بار مخالف کچھ تیزی ہو گئی تو ہٹ جانے کا عندیہ دیا گیا۔ حاکمِ وقت نے میکائولی کی ’’پرنس‘‘ نہ صرف پڑھ رکھی تھی بلکہ اسے ٹھیک طرح سے سمجھا بھی تھا۔ اگر وہ بدقسم اطالوی مصنف وطن عزیزمیں بیٹھ کر عرق ریزی کرتا تو اسے چند مزید ’’مفید‘‘ مشوروں سے نوازا جاتا۔ نور خان سے اس قسم کی ’’گھمن گھبیریاں‘‘ ممکن نہ تھیں۔ ایک تو اس کا تعلق بھی ’’سینگوں والی سروس‘‘ سے تھا پھر 65ء کی جنگ کا ہیرو تھا لہٰذا کامیاب رہا۔ کارنیلس بھی ملک کا مقبول ترین منصف تھا۔ ساری زندگی صراطِ مستقیم پر چلنا آسان کام نہیں ہوتا۔ عدلیہ کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہونے کے باوصف اس نے تمام زندگی فلیٹیز ہوٹل کے ایک بوسیدہ کمرے میں گزاری اور وسیع و عریض کوٹھیوں میں منتقل نہ ہوا۔ علامہ اقبال نے مردِ مومن کی جن خوبیوں کا ذکرکیا ہے ان پر یسوع مسیح کا یہ پیروکا پورا اُترتا تھا۔
۲۔ کرکٹ کے پانچ یوم تک پھیلے ہوئے تھکا دینے والے کھیل کے پَرتو آسٹریلیا کے چینل 9 کے مالک حضرت کیری پیکر نے کاٹ دئیے تھے اور سفید لباس کو بھی قوسِ قزح میں بدل دیا تھا باایں ہمہ محسوس کیا گیا کہ کھیل ہنوز طویل ہے۔ کھیل ایسا ہونا چاہئے جس پر ایک لمحے کے لیے بھی تماشائیوں کی نگاہ نہ ہٹے۔
چنانچہ 20/20 متعارف کرایا گیا۔ اس ’’فارمیٹ‘‘ نے کرکٹ کوایک نئی سمت عطا کی ، انوکھی ہمت اور حوصلہ بخشا۔ پہلے تو یہ صرف ملکوں کے درمیان کھیلا جاتا تھا ، پھر ہر ملک نے تمام ملکوں سے چیدہ چیدہ کھلاڑی منگوا کر اپنی اپنی ٹورنامنٹ کا انعقاد کرانا شروع کیا ان میں سرِفہرست تو بلاشبہ ہمارا پڑوسی ملک ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو عوام کا جوش و جنوں دیدنی ہوتا ہے۔ بھگوان کی جو مورتیاں انہوں نے مندروں میں سجائی ہوتی ہیں ، وہ ہی کھلاڑیوں کی صورت میں وہ دل کے مندر میں بٹھائے رکھتے ہیں پھر آبادی سوا ارب کے لگ بھگ ہے۔ اگر کرکٹ کھیلنے والے تمام ممالک کی آبادی کو جمع کیا جائے تو بھی اس سے بہت کم بنتی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی وجہ سے پیسے کی فراوانی ہے۔ کھلاڑی دیکھتے ہی دیکھتے عُسرت و تنگدستی کے خار زار سے نکل کر سیم و زر کے گلزار میں نکل آتے ہیں۔ کرکٹ بورڈ بھی امیر ہو گئے ہیں۔
۳۔ گو پاکستان کی آبادی بھی 22 کروڑ کے لگ بھگ ہے لیکن بدقسمتی سے دہشت گردی کی وجہ سے اچھے کھلاڑی یہاں آ کر کھیلنے سے بدکتے ہیں۔ گو ہماری بہادر فوج نے دہشت گردی کا قلع قمع کر دیا ہے لیکن تاثر جاتے جاتے جاتا ہے۔ اچھے کھلاڑیوں کے نہ آنے کی اصل وجہ کچھ اور ہے۔ ہمارا ازلی دشمن ہندوستان عسکری محاذ پر تو پسپا ہوتا نظر آتا ہے مگر کرکٹ کے میدان میدان میں کافی حد تک کامیاب ہے۔ وہ ہر اس کھلاڑی کو جو پاک دھرتی پر قدم رکھتا ہے ’بلیک لسٹ‘ کر دیتا ہے۔ اسے IPL میں نہیں بلاتا۔ چونکہ وہاں کا معاوضہ ہماری نسبت کئی گنا زیادہ ہے۔ اس لیے کوئی غیر ملکی کھلاڑی بھی معاشی موت نہیں چاہتا۔ پیسے کی جو ریل پیل وہاں ہے اس کا عشر عشیر بھی پاکستان نہیں دے پاتا لہٰذا ہمارے ٹورنامنٹ میں کسی ملک کاکوئی بھی قابلِ ذکر کھلاڑی شرکت نہیں کرتا۔ یہاں صرف وہ پلیئر آتے ہیں جو ’’راندۂ درگاہ‘‘ ہوتے ہیں۔ تھکے تھکے ، پنشن یافتہ! چلے ہوئے کارتوس!
بعض تو کارتوس بھی نہیں ہوتے۔ انہیں ’’شُرشُریاں‘‘ کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔ اسی قسم کے کھلاڑیوں کو خان صاحب نے ایک مرتبہ ’’ریلوکٹے‘‘ کہا تھا۔ وہ تو اس بوجوہ منقار زیر پر ہیں لیکن نقاد کی زبان کو تو نہیں روکا جا سکتا۔ سادہ لوح عوام کو بتایا جاتا ہے۔ انگلستان سے مسٹر ٹام آتے ہیں۔ آسٹریلیا نے ’’ڈک‘‘ بھیجا ہے۔ ویسٹ انڈیز سے ’’ہیری‘‘ نے قدم رنجاں فرمایا ہے…پھر ان کی سکیورٹی پر ہزارہا اہلکارتعینات کردیئے جاتے ہیں۔ بڑے فخر سے اعلان کیا جاتا ہے ’’اتنی سیکورٹی، اس قدر پروٹوکول تو صدرمملکت کو بھی نہیں دیا جاتا۔ شہر کی تمام اہم شاہرائیں بندکر دی جاتی ہیں۔ گھنٹوں ٹریفک رکی رہتی ہے۔ شہری ’’کھجل خوار‘‘ ہوتے ہیں۔ بچے سکولوں میں تاخیر سے پہنچتے ہیں۔ مریض ایمبولینسوں میں بلبلاتے ہیں۔ چارسو کرفیو کا سماں ہوتا ہے جن ہوٹل میں یہ ٹھہرتے ہیں اس پر قلعے کا گمان ہوتا ہے۔ کیا دُنیا کے کسی ملک میںایسا ہوتاہے؟ (جاری)