یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ حکومت پیپلز پارٹی کی ہو مسلم لیگ کی ہو یا پھر تحریک انصاف کی ایسے میں مفاد پرست اور خانہ بدوش سیاستدانوں کے لیے ہردور میں عید کا سماں ہی لگارہتاہے،ہمارے ملک میں ان سیاستدانوں کی کوئی کمی نہیں ہے یہ سیاستدان ہوشیار اور چالاک اور پرلے درجے کے منافق ہوتے ہیں جب تک حکومت مظبوط نظر آتی ہے یہ وزیراعظم کے آگے پیچھے دکھائی دیتے ہیں،اور جیسے حکومت کے دن پورے ہونے کے قریب ہو یا وزیراعظم کو مشکلات نے گھیرا ہوا ہویہ سیاستدان اپنامنافقانہ رنگ دکھانا شروع کردیتے ہیں،اس ملک میں بڑی پارٹی والوں کے مفادات بڑے اور چھوٹی جماعتوں کے مفادات چھوٹے ہوتے ہیں مگروقت کے ساتھ مفادات کا سائز بھی بڑا ہوجاتاہے،چھوٹی پارٹیوں کے لوگ بڑی جماعتوں میں اسی لیے آتے جاتے ہیں تاکہ اقتدار یعنی وزارتوں کے مزے لوٹیں جاسکیں، اس ملک میں بڑی سیاسی جماعتیں اگر دوتہائی اکثریت کو حاصل کربھی لیں تو ان مفاد پرستوں کے بغیر حکومت کو بنانا مشکل ہوجاتاہے،یہ ہی ڈر لگارہتاہے کہ اگر ہم نے ان چھوٹی جماعتوں کو حکومتی قافلے میں شامل نہ کیا تو کہیں یہ دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں روڑے نہ اٹکانا شروع کردیں،اب زران چھوٹی مگر ناک پر لڑجانے والی جماعتوں کا زکر کردیتے ہیں ان سیاسی جماعتوں میں سرفہرست ایم کیو ایم ہے جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ ق اور بی این پی جیسی جماعتیں ہیں جو ہمیں ہر دور میں اقتدار میں ہی دکھائی دیتی ہیں، ایسا اس صورت حال میں ہوتا ہے جب کسی بھی ایک پارٹی کو حکومت سازی کے لئے اکثریت حاصل نہ ہو پائی ہو اور اسے اکثریت ثابت کرنے کے لئے باہر سے مدد کی درکار ہوتی ہے۔ایسے میں وہ پارٹی یہ کوشش کرتی ہے کہ کسی طرح سے مخالف، آزاد یا دیگر چھوٹی پارٹیوں کے ارکان انہیں حمایت دے دیں اور ان کی حکومت بن جائے۔ اس کے لئے ہر طرح کے حربے کا استعمال کیا جاتا ہے، جو کہ یقینی طورپر ہارس ٹریڈنگ کہلاتی ہیں اور یہ ہی درج زیل چھوٹی جماعتیں سب سے زیادہ موقع پرست جماعتیں جو پیسہ بنانے کے ساتھ وزارتیں ہتھیانے کے ہنر بھی جانتی ہیں اور ساتھ ہی اپنے اگلے پچھلے سیاسی گناہ بھی معاف کروالیتی ہیں،ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں جب بھی انتخابات، حکومت سازی یا سیاسی جوڑ توڑ کی بات ہوتی ہے تو انگریزی زبان کی اصطلاح ’ہارس ٹریڈنگ‘ یعنی گھوڑوں کی تجارت کا استعمال بہت سننے کو ملتا ہے،دراصل لفظ ’ہارس ٹریڈنگ‘ اب کہاوت کے طور پر استعمال کیا جاتاہے اور اس کے لفظی معنی’گھوڑوں کی خرید و فروخت‘ سے ہے،یہ لفظ دراصل سیاسی جماعتوں کے ساتھ سودے بازی کہلاتا ہے،تاریخی کتابوں کے مطابق اس لفظ کا استعمال پہلے واقعی گھوڑوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے ہوتا تھا۔ 1820 کے آس پاس تاجر اچھی نسل کے گھوڑے خریدنے کے لئے چالاکی کا استعمال کرتے تھے۔ تجارت کا یہ طریقہ کچھ اس طرح کا تھا جس میں چالاکی، پیسے اور ایک دوسرے کے فائدوں کے لئے گھوڑوں کو کسی کے اصطبل سے کھول کر کہیں اور باندھ دیا جاتا ہے،ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ چنگیز خان جب شمالی چین فتح کرنے کے بعد 1215 میں ترکستان کی طرف بڑھا تو اس وقت کے ترکستان کے حکمران خوارزم شاہ اس تکینک کو سمجھ چکے تھے۔ انھوں نے شمالی چین سے لے کر سمرقند تک راستے کے تمام شہروں اور بستیوں کے تمام گھوڑے خرید لیے۔ جب تاتاری چین سے نکلے تو وہ گھوڑوں کی شدید کمی کا شکار ہو گئے،جس کے نتیجے میں تاریخ میں پہلی بار ہارس ٹریڈنگ کی اصلاح سامنے آئی تھی۔ خوارزم شاہ دنیا کا پہلا حکمران تھا جس نے دشمن کو شکست دینے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کی تکنیک استعمال کی تھی۔بلکل اسی طرح پاکستان کی تاریخ میں چھانگا مانگا کی سیاست کا تعلق ہی ہارس ٹریڈنگ کے واقعات سے جوڑا جاتا ہے۔ مہران بینک سکینڈل ایئرمارشل اصغر خان مرحوم کی تمام تر جدوجہد بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے،مشرف دور میں پہلے ق لیگ اور بعد ازاں حکومت سازی کے لیے پیٹریاٹ کی تشکیل ہو یا 2018 میں خیبرپختونخوا کے ارکان صوبائی اسمبلی کی جانب سے ووٹ بیچنے کا معاملہ، اس کو بھی ہارس ٹریڈنگ کے زمرے میں لایا جاتا ہے،تازہ ترین واقعات میں بلوچستان اسمبلی سے صادق سنجرانی اور ان کے گروپ کی کامیابی اور اس کے بعد چیئرمین سینیٹ کے انتخاب اور تحریک عدم اعتماد کی ناکامی اسی انداز سیاست کا ایک حصہ ہے۔موجودہ اتحادیوں کی اگر بات کریں تو ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان جو معاہدہ طے پایا تھا اْس پرساڈھے تین سال میں تو عمل نہیں ہوا، جہاں تک ایم کیو ایم کے سابقہ سیکٹر اور یونٹ آفس کھولنے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کی بات ہے وہ تو وزیراعظم عمران خان کے اختیار سے باہر کا معاملہ رہا اس پر عمران خان کے اعتماد کے ووٹ کے وقت ایم کیو ایم پاکستان کے پاس ایک سنہرا موقع نظر آرہاہے کہ اب سب مزے لے لیے اس لیے اب حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا جائے تاکہ اگلی حکومت میں رہنے کی راہ ہموار ہوسکے۔اس انداز سیاست میں ق لیگ کے پاس مرکز میں صرف پانچ جبکہ پنجاب میں دس سیٹیں ہیں۔ انہی نشستوں کے بل پر وفاق میں مونس الہی وزیر ہیں تو پنجاب میں پرویز الہی سپیکر اسمبلی ہیں،کم نشستیں ہونے کے باوجود ملکی سیاست میں اپنے آپ اقتدار میں رکھنا چودھری برادرن کی حقیقی سیاست ہے جبکہ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کی سیاست 1999 کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ کے گرد ہی گھومتی ہے،اس کے علاوہ کچھ سنگل سیاستدان جن کا کوئی اتہ پتہ تو نہیں ہوتا مگر کسی نہ کسی جماعت میں ایک بڑی سیٹ ان کا مقدر بنی ہوتی ہے پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری جنرل پرویز مشرف کے ساتھ تھے جہاں سے وہ پیپلزپارٹی میں چلے گئے تھے اور اب پی ٹی آئی میں کے ترجمان بن کر عمران خان کے گن گارہے ہیں اور اپنے پرانے آقاؤں کو بربھلا کہہ رہے ہیں۔جبکہ ایک سیٹ والا شیخ رشید اس ملک کی سب سے بھاری وزارت یعنی وزارت داخلہ کا وزیربھی ہے جن کے بیانات اور آقاؤں کی تعداد ماشااللہ کسی سے کم نہیں ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے سیاسی گھن چکر میں خانہ بدوش اور مفاد پرست سیاستدانوں کا راستہ کیسے روکا جائے،پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کا راستہ روکنے کا واحد طریقہ ہے کہ سیاست اور جمہوریت کو آگے بڑھنے دیا جائے اور اس حوالے سے عوام میں شعور پیدا کیا جائے اورجیسے جیسے شعور بڑھے گا عوام ہارس ٹریڈنگ میں ملوث لوگوں کو انتخابات میں مسترد کرتے جائیں گے۔