کراچی لٹریری فیسٹول کراچی کی ادبی و ثقافتی شناخت ہے جو گزشتہ بارہ برسوں سے متواتر ہورہا ہے۔ یہاں ادب کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ شرکت کرتے ہیں۔ امسال یہ تیرھواں فیسٹول تھا۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول میں آنے والے ادب کے چند بڑے ناموں سے ہم نے ایک سوال کیا کہ ’’ان ادبی میلوں کو بہتر کیسے کیا جاسکتا ہے؟‘‘ دیکھیئے انھوں نے کیا جوابات دیے۔خرم سہیل بہت باصلاحیت شخصیت کے مالک مصنف، اینکر اور جاپانی ادب سے بہت لگائو رکھنے والی ایک متحرک شخصیت انھوں نے کہا آپ کے سوال پہ مجھے لفظ مزید پہ اعتراض ہے۔ آپ کے سوال میں جو لفظ مزید ہے اس پہ اس لیئے اعتراض ہے کہ مزید تو تب ہو جب پہلے بہتر ہوں تو مزید بہتر کیا جائے ۔ یہ پہلے سے تنزلی کی طرف ہیں۔ یہ اوپر سے نیچے آرہے ہیں۔ آغاز بہت اچّھا اور شان دار ہوا تھا۔ شروع کے دو چار سال بہت ہی زبردست تھے۔ ہم لوگوں نے بہت سیکھا اور استفادہ کیا مگر بالترتیب اور بتدریج یہ اب اپنے زوال کی طرف جارہے ہیں اور یہ سال اس بات کی کھلی علامت ہے کہ یہ میلے ہی رہ گ? ہیں ادب اس میں سے اب غا?ب ہوتا جارہا ہے۔ انتظامیہ کو سنجیدگی کے ساتھ ادب کے تقاضوں کے مطابق ان کا انعقاد کرنا چاہیے?۔
راحت سعید ترقی پسند مصنفین میں ایک اہم نام ہیں ان کا نقطہء نظر مختلف تھا انھوں نے کہا کہ ان میلوں میں بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ نوجوان لکھنے والوں کو سامنے ضرور لانا چاہیے اس میں اور ان کو وہ اہمیت دینا چاہیے جس کے بعد وہ اپنے آپ کو اس کا حصہ محسوس کریں۔ انھیں زیادہ سے زیادہ آگے لانا چاہیے۔ ہمارے یہاں جو ہیں نوجوان اردو ادب کی طرف کم ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ جو میری سمجھ میں جو آے وہ یہ کہ وہ پڑھتے انگریزی ہیں اور رہتے بھی ایسے ماحول میں ہیں کہ اردو ادب کی طرف اس طرح سے آتے نہیں ہیں۔ انھیں اس طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔
سلیم صدّیقی ایک بہت اچھے افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ ان سے جب پوچھا گیا ان میلوں کو کیسے مزید بہتر کیا جاسکتا ہے تو انھوں نے کہا ان میلوں میں بہتری کی گنجائش تو بہت ہے۔ ان میں جو کمی لگ رہی ہے وہ یہ کہ تھوڑا سا ادیبوں اور شاعروں کو نوجوانوں کو چانس دینا چاہیے۔ جو سینئرلوگ ہیں ایک حلقہ ان کا بن گیا ہے تو تھوڑی سی ناانصافی ہوگئی ہے۔ وہی چہرے بار بار دکھائی دیتے ہیں۔ باقی تو بہت اچھا ہے فیسٹیول کہ دوستوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ برسوں سے جن سے ہم نہیں ملتے ہیں وہ یہاں مل جاتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے ہیں گفت گو ہوتی ہے۔ دنیا کے ادب پہ تمام موضوعات پہ بات ہوتی ہے۔ جس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
کینیڈا میں مقیم بہت اچھے شاعر اور ایشین ٹیلی ویژن نیٹورک سے وابستہ اشفاق حسین نے کہا ادب میلے میں مقررین کو دس منٹ کا ٹائم دیا جائے تو سنجیدہ گفت گو نہیں ہوسکتی۔ ہوتی ہے لیکن اور زیادہ کرنے کے لی? زیادہ وقت کی ضرورت ہے۔ اب ظاہر ہے وسائل بھی کم ہیں۔ کسی کو ایک ہی وقت میں چار جگہ بولنا ہے تو آپ کہاں جائیں گے۔ آرگنائزر کی بھی مجبوری ہے۔ ہاں ورنہ آپ امیجن کیجیے سنجیدہ گفت گو میں ایک سیشن ہو جیسے ان آگریشن ہوتا ہے۔ ہر طرف لوگ بیٹھے رہتے ہیں۔ تو اِس کو بہتر بنانے کا حل یہ ہے میرے خیال سے کہ اس کی جو وسعت ہے اس میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔ ہم بھی ٹورنٹو میں کانفرنسز کرتے تھے تو ہمارے یہاں پیٹرن تھا کانفرنس کا کہ دن بھر میں صرف چار مقرر ہوتے تھے۔ ہمارا پیٹرن سیٹ تھا۔ دس بجے شروع ہوا دس سے شام پانچ تک۔ ہمارے وسائل بھی کم تھے۔ یہاں تو ایسا نہیں ہے۔ تو اس کو بہتر کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ ابھی بھی بہتر ہورہا ہے۔ میں برائی کے معنوں میں نہیں کہہ رہا ہوں۔ سیشنز ذرا کم ہوں اور اتنے کم ہوں کہ لوگوں کو سیشنز اٹینڈ کرنے میں مسائلہ نہ ہو۔ ایک طرف اگر سیاست پہ بات ہورہی ہے تو دوسری طرف ادب پہ گفت گو ہو تاکہ لوگ اپنی پسند کی گفت گو سن سکیں۔ اگر آپ بیس سیشنز چاہتے ہیں دو دن میں کرنا تو بھاگ دوڑ مچے گی سیدھی سی بات ہے۔ اگر یہ ہے کہ بھی ہم اس کو یونی ورسٹی کا سیمینار کیوں بنائیں بھی۔ میلے کا جو ایک کانسیپٹ ہے کہ ہر قسم کے لوگ آئیں تو یہ بھی ایک اچھائی ہے۔ اس لحاظ سے تو بالکل ٹھیک ہے۔ تھوڑا سا وقت ملنا چاہیے مقررین کو۔ زیادہ وقت دینے کے لیے سیشن کم ہوں۔ چار جگہ سیشن ہورہے ہیں۔ چار کے بجائے دو جگہ سیشن ہونا چاہیئں۔ جیسے مشاعرے میں کہا گیا کہ بس پانچ منٹ ہیں آپ کے پاس تو شاعروں کو پانچ منٹ دینے کے بجائے آپ نے شاعر کیوں نہ کم کردیے۔ بس یہ ہی ایک بات ہے باقی تو ہر چیز ٹھیک ہے بہتر ہے۔
شاہین صلاح الدین نے کہا میرا تو خیال یہ ہے کہ ادبی میلے ہوناچاہیے ادبی محفلیں ہونا چاہیئں اور جب چھوٹی چھوٹی محفلیں ہوں گی تو وہ بڑھ کے ایک میلہ ہی بن جاتا ہے۔ ہمارے شہر میں پچھلے کچھ دنوں سے حالات بہتر نہیں تھے ایک تو کووڈ دوسرے پھر کچھ سیاسی حالات ایسے تھے کہ بہت محدود ہوگئی تھیں یہ ادبی محفلیں ادبی جلسے۔ اب میرا خیال ہے کہ بہت اچھی بات ہے سینیریو بدل رہا ہے وقت بدل رہا ہے۔ ضرورتِ شہر ہے کہ آپ ادبی محفلیں کریں اور لٹریچر فیسٹیول میرا خیال ہے کہ بہت اچھا ہے۔ ابھی بہتری کی بات چھوڑ دیں ابھی انعقاد شروع کردیں ابھی شروع ہونے دیں۔ انٹریکشن ہوگا جتنا زیادہ ملیں گے ملاقات ہوگی بات ہوگی تو بات آگے بڑھے گی۔ بہت نئی چیزیں ہیں ہم نے کہاں سوچا تھا کہ اس طرح دور دراز کے لوگ مل بیٹھیں گے اور اس طرح بات ہوگی۔
ناصرہ زبیری نے کہا دیکھیں ابھی تو چوں کہ بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا یہ تیرھواں میلہ ہے اور اس کے علاوہ بھی ہم دیکھتے ہیں آرٹس کونسل کراچی آرٹس کونسل جو ہے وہ اس شہر میں بہت بڑے بڑے فنکشن کررہا ہوتا ہے۔ تو لوگوں کو ایجوکیٹ بھی کرنا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں جو بہتری کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اور پریسائز ہونے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہم اپنے موضوعات کا جو انتخاب کریں وہ زیادہ لوز اینڈڈ نہ ہوں وہ اگر اسپیسیفک ہوں گے تو لوگوں تک زیادہ اچھے طریقے تک بات پہنچے گی۔ باقی چیزیں صحیح ہیں۔ وینیو اچّھا ہے۔ اسپیکرز بہت اچّھے ہوتے ہیں۔ سلیکشن بہت اچھی ہوتی ہے۔ سب کْچھ اچّھا ہوتا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ بہت ہی اچّھا آغاز ہوا ہے اس دفعہ سے کہ ہماری جو دوسری زبانیں ہیں ہماری صوبائیی زبانیں جو ہمارے چاروں صوبوں میں بولی جاتی ہیں پنجابی ہے سندھی ہے بلوچی ہے اور ان کی کتابوں کو انعامات دینے کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہے۔ میرے خیال میں اس کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ جو ایک محرومی کا احساس ہوتا ہے دوسری زبانوں میں وہ ختم ہو اور انگریزی کی تو یہاں پہ ہوتی ہیں کتابیں وہ بھی بہت اچھی روایت ہے اور اردو کی بھی ہوتی ہیں۔ بس میرے خیال میں یہ ہی چیزیں ہیں اور ہم یہ ان کا انعقاد کرتے رہیں گے آہستہ آہستہ تو خود بخود اس میں بہتری آتی جا? گی اور ارتقا۶ کا عمل جاری رہے گا تو ہم مزید آگے بڑھیں گے۔
سب رنگ کہانیاں کے مئولف حسن رضا گوندل کے ایل ایف کے دنوں میں کراچی میں تھے۔ انھوں نے بھی اس میں شرکت کی۔ ہم نے ان سے بھی یہ سوال کرڈالا انھوں نے جواب میں کہا ’’ چیزوں میں بہتری ہمیشہ وقت کے ساتھ ساتھ ساتھ آتی ہے۔ آپ بہتری کسے کہتے یا سمجھتے ہیں؟ سب کا نقطہ۶نظر مختلف ہوتا ہے۔ آپ کو خالصتاً ادبی تقریب نہ سمجھی میلے کے حیثیت سے دیکھی تو آپ کو معلوم ہوگا یہ کتنا بہتر ایونٹ ہے چلیے اگر آپ اسے ادبی نقطہ۶نگاہ سے بھی دیکھیں تو بھی اس میں ادب سے وابستہ ہر عنصر ہے۔ مشاعرے سے لے کر کتابوں کی قریت تک۔ سب کچھ ہے اور میرے خیال سے تو سبھی کچھ بہت اچّھا بلکہ بہترین ہے۔