مار کھائے بندر کمائی کھائے مداری

آج جب ہر طرف تحریک عدم اعتماد پر شور مچا  ہواہے اور کچھ براہ راست پوچھے گئے سوالات مثلاً یہ تحریک عدم اعتماد کس انجام سے دوچار ہو گی، اسکا بینیفشری کون ہو گا، وزارت عظمیٰ کس کو ملے گی، پنجاب کا وزیراعلی کون ہو گااور کچھ نہ پوچھے گئے سوالات مثلاً انا ً فانا ًایسی تحریک کے سامنے آنے کے اسباب، اپوزیشن کا اسطرح ایک دم ایک آواز ہونا، اتحادی جماعتوں کی طرف سے ابتک کی سرد مہری، حکومت کی اپنی پارٹی کی اندر سے واضح گروپ بندی، مریم نواز کی مکمل زبان بندی یہ ہیں وہ  چیدہ چیدہ سوالات جو تشنگی سمیٹے ہوئے ہیں، اْن پر راقم نہ تو پنڈی سے تعلق رکھنے والے طوطا فال والے نام نہاد سیاسی نجومی کی طرح کوئی پشین گوئی کرے گا اور نہ ہی کسی بناسپتی اینکر کی طرح لکھی پرچیاں پڑھے گا لیکن اپنی تیسری آنکھ کی بدولت جو عنوان وہ اپنے اس کالم کو دینے جا رہا ہے امید کرتا ہوں کہ اکثر قارئین کے نہ صرف وہ بہت سے سوالوں کا جواب دیتا نظر آئے گا بلکہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بہت سی چھپی حقیقتوں کو بھی اشکار کرے گا۔ آج سے تین ہفتے پہلے شہر لاہور سے جس یلغار کی ابتدا ہوئی تھی اس میں شامل تقریباً تمام دستے کوچ کر کے اب شہر اقتدار پہنچ چکے ہیں جہاں فائنل راؤنڈ کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ میری تو کوئی حیثیت ہی نہیں لیکن بڑے بڑے نباض پچھلے چند دن کی جنونی کیفیات کو دیکھتے ہوئے جس کسی امکانی حادثاتی تصادم کو بعید از قیاس نہیں سمجھ رہے اس کے بارے میری کیا ذاتی رائے ہے وہ یہ خاکسار اس کالم کے آخر پر تجویز کرے گا لیکن جیسا میں اپنے اکثر کالموں میں کرتا ہوں کہ کوئی بھی رائے اخذ کرتے وقت میں تاریخی حقائق کا سہارا لیتا ہوں، لہذا آج ایک دفعہ پھر آپکو ماضی کے جھروکوں میں لیئے چلتا ہوں۔ یہ اْن دنوں کی بات ہے جب آجکل کے بڑے بڑے مشہور اینکرز اور کالم نگار اس وقت کے ایک اس انگریزی روزنامہ کے دفتر میں کام کرتے تھے جسکے مالک بارے کرسٹینا لیمب نے بھی اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ وہ کس طرح پاکستان میں حکومتیں بنانے اور گرانے میں اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ نواز شریف کے پہلے دور کی بات ہے جیسا میں نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ سول بیوروکریسی سے اجلال حیدر زیدی کی بطور ڈیفنس سیکرٹری روانگی اور ایک مخصوص تقرری چلیں آج کھل کر لکھ دیتا ہوں جنرل وحید کاکڑ کی بطور آرمی چیف تقرری پر نواز شریف بطور سیاسی قوت اور غلام اسحاق خان میں اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے کے طور پر جو فاصلے بڑھے اور پھر یہ رقابت بڑھتے بڑھتے تصادم پر پہنچی اور جب لامحالہ اس جنگ کا اختتام نواز اور غلام اسحاق دونوں کی رخصتی پر ہوا تو جاننے والے جانتے ہیں کہ اسکے کچھ کردار جو آج بھی زندہ ہیں جن میں زرداری صاحب اور اس انگریزی اخبار کا مالک جو بینظیر صاحبہ کے بہت قریب سمجھا جاتا تھا جبکہ اسی کھیل میں شامل ایک اور کردار جو ایک دوسرے انگریزی اخبار کا مالک تھا اور غلام اسحاق کے قریب سمجھا جانے والا جو اب اس دنیا میں نہیں وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ جب یہ برخاستگیاں ہو رہی تھیں تو اس وقت اس کھیل کے کچھ فریقوں کے درمیان ایک دستاویز تیار ہوئی تھی جس میں اس بات کی گارنٹی دی گئی تھی کہ آئندہ منتخب ہونے والی اسمبلی میں جب صدارتی امیدوار کی ووٹنگ ہو گی تو ایک مخصوص پارٹی ہر حالت غلام اسحاق کو سپورٹ کرے گی۔ وقت نے دیکھا کہ جب وقت آیا تو اس پارٹی کی طرف سے فاروق لغاری کو امیدوار بنا لیا گیا جس پر غلام اسحاق خاصے سیخ پا ہوئے تو گارنٹی دینے والوں سے انھوں نے کہا کہ آپ بینظیر صاحبہ سے رابطہ کرو۔ واقفان سْناتے ہیں کہ جب بینظیر صاحبہ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے تین حرفوں پر مشتمل ایک مخصوص ٹرم استعمال کی جسکو میں یہاں قصداً نہیں لکھو ں گا جسکا واضح مطلب یہ تھا کہ غلام اسحاق کسی مخصوص حلقے کی طرف سے اب پسندیدہ نہیں رہے میں اس سلسلے اب میں کیا کر سکتی ہوں، آپ اسحاق بابا کو کہیں وہ ان سے بات کریں۔ اس سارے قصے کے بیان کرنے کا آپ میرا مقصد سمجھ گئے ہونگے کہ آج اتحادی پارٹیوں کی طرف سے جن جن گارنٹیوں کی ڈیمانڈ کی جا رہی ہے وقت آنے پر انکی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ بات صرف اس ایک قصے تک محدود نہیں، ایک معاہدہ 2008ء  اور اس سے پہلے بھی میثاق جمہوریت کے نام سے ہوا تھا اور پھر  سب نے دیکھا تھا کہ ایک طرف زرداری صاحب نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ایسے معاہدے آسمانی صحیفے نہیں ہوتے تو دوسری طرف نواز صاحب کہیں مارچوں کی قیادت اور کہیں کالا کوٹ پہن کر عدالتوں میں پیش ہوتے نظر آئے تھے، سو قارئین ان تاریخی حقائق کی روشنی میں آپکے سامنے اپنی رائے رکھتا ہوں کہ جسطرح مار کھائی غلام اسحاق خان نے اور صدر بن گئے فاروق لغاری اور پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کس طرح 2008ء  میں زرداری صاحب صدارت کی کرسی لے اْڑے اسی طرح اس پورے کھیل میں پولیٹیکل سائنس کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر جو بات میں سمجھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اس دفعہ بھی انجام وہی پرانا ہو گا کہ مار کھائے بندر اور کمائی کھائے مداری۔ میں تو صرف اس حد تک اشارہ کر سکتا ہوں باقی آگے کچھ کہوں تو میرے پر جلتے ہیں۔ باقی جس دن میرا یہ کالم چھپے گا شائد اس دن تک بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہو گا۔ شائد اس دن تک صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہو، شائد حکومتی اتحادیوں کے استعفوں کی وجہ سے حکومت کو جو یہ کہہ رہی ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد والے دن ایوان میں نہیں جاینگے اسے خود اعتماد کا ووٹ لینا پڑ جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ پنجاب میں اسمبلی تحلیل کی کوئی ایڈوائس سامنے آ جائے اور بڑوں بڑوں کے ارمان زمین بوس ہو جائیں لیکن امکان یہی ہے حالات جو بھی ہوں کمائی کوئی اور ہی کھائے گا۔باقی آپ خود سیانے ہو ۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...