انسان کی ظاہری جسمانی گندگی کی نسبت ذہنی گندگی وقت کے ساتھ عیاں ہو ہی جاتی ہے ، اناء پرستی ،حسد، گھمنڈ ،ظاہر پرستی اور ریاکاری برے اخلاق و کردار کی غماز اور شرک ہے،وہ معاشرہ جس میں ریاکاری بڑھ جاتی ہے وہ اخلاقِ حسنہ سے محروم ہو جاتا ہے ، بد زبانی جب عادات کا جزبن جائے تو اسے قابو میں رکھنا محال ہو جاتا ہے ، زبان ہی جسم کا ایک ایسا عضو ہے جسے بہت سوچ سمجھ کے بعد ہی حرکت میں لانا ہوتا ہے ،کیونکہ زبان سے نکلے ہوئے کلمات قابلِ مواخذہ ہیں ۔
علم سے بڑھ کر ادب ، احترام اور بات کرنے کے اسلوب ہی انسانیت کی معراج ہے ، انسان کو زندگی کے نشیب و فراز میں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، جہاں علم ناکام ہو جاتا ہے اور حسن ِ سلوک، ادب اور شائستگی سے ہی معاملات کو سنبھالاجاتا ہے، معاشرے میں حسنِ سلوک، ادب اور شائستگی کو اپنانے والی شخصیت ہی محترم ہوتی ہے، قول ہے کہ ’’ با ادب با نصیب ،بے ادب بے نصیب ‘‘ ادب کا پہلاتقاضا اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ سے محبت سے وابستہ ہے جبکہ مخلوق کے ساتھ دوستوں کے ساتھ ، اخوان کے ساتھ تعلق و صحبت اور محبت پہ قائم ہے ، حضرت شیخ سید رحمتہ اللہ نے فرما یا ’’ کہ جس شخص نے اپنے بچپن میں بڑوں کی عزت و احترام کرنا نہیں سیکھا تو وہ چاہے کتنا بھی بڑا کیوں نا ہو جائے اس سے بھلائی کی کوئی امید نا رکھنا ۔
انسان میں لا کھ اچھائیاں ہوں اگر وہ برے اخلاق کا مالک ہے تو ساری اچھائیاں غارت ہو جاتی ہیں ، جھوٹ، لالچ،حسد، بغض ، چغلی،غیبت، بے ایمانی ، بد کلامی، کسی کی ہنسی اڑانا، کسی کی عیب جوئی کرنا، برے الفاظ یا نام سے پکارنا ، کسی کی ٹوہ میں رہنا ، جھوٹ بول کر اپنی کہی ہوئی بات درست ثابت کرنا اور کسی کو ذہنی اذیت دینا برے اخلاق کے زمرے میں آتا ہے ، ادب کے قرینوں میں سب سے زیادہ ادب کا تقاضا خود لوگ ہی کرتے ہیں ایسے لوگ خود عزت سے زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اور دوسروں سے بھی اسی رویہ کی امید رکھتے ہیں ، لوگوں کی بد لحاضی کے باوجود ان کے ساتھ نہایت عزت وتکریم کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔
ادب کا عنصر زندگی کے ہر قدم پر بڑی اہمیت کا حامل ہے ، ایک عام شہری ادب سے عاری ہو سکتا ہے ، لیکن ملک کے اعلیٰ عہدے پر فائز شخص سرِ عام اگر بے ادبی کے لہجے میں بات کرے تو یہ انتہائی معیوب عمل ہے، عمران خان حزب ِ مخالف سے جنون کی حد تک عدا وت رکھتے ہیں ،اقتدار میں آنے سے پہلے وہ جیسی بھی زبان استعمال کرتے تھے اس کی اہمیت ایسی نہیں تھی جیسا کہ اب بحیثیت ملک کی انتظامیہ کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے ہے دنیا کی قیادت اور میڈیا بطور ملک کے وزیرِ اعظم ان کی ایک ایک بات توجہ سے سنتے اور تجزیہ کرتے ہیں ، انہوں نے 2014 ء میں ننکانہ صاحب کے جلسے میں مرحومہ عاصمہ جہانگیر کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کئے جو کہ ایک مہذب معاشرے میں معیوب سمجھے جاتے ہیں ، حال ہی میں میلسی کے جلسے عام میں اور پھر گورنر ہائوس کراچی میں پی ٹی آئی کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے سربر اہان کو جن کی عوام میںمقبولیت ہے ، اور ایک اکژیتی رائے عامہ کی حامل جماعتیں ہیں ان کے قائدین کے نام بگاڑ کر انہیں مخاطب کرنا ، اور دھمکیاں دینا کسی طور پر مہذب رویہ نہیں اور نا ہی ایسا رویہ ایک ملک کے وزیراعظم کو اپنانا چاہئے ، اپنے مخالفین کی عیب جوئی کرنا ان کے نام بگاڑ کر بد کلامی کی روش ترک کر کے ملکی معیشت اور عوام کی فلاح و بہبود کی طرف دی ہوتی تو ملک کی معاشی حالت مستحکم ہوتی ہم تو محترم وزیر اعظم کو یہی مشورہ دیں گے کہ
بس میرؔ اب تو خاصہ ء آتشِ زباں کو تھام
بدکلامی اور بے ادب گفتگو نوجوان نسل اور معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتی ہے ، صحافتی ذمہ داریوں کے اسلوب کا تقاضا ہے کہ ایسی تقاریر یا گفتگو کو ڈھانپ دیا جائے ،دوسرے لفظوں میں غیر شائستہ اور متنازع الفاظ کو حذف کر دینا ہی معاشرے کے حق میں بہتر ہے، گورنر مغربی پاکستا ن مر حوم ملک امیر محمد خان نے اپنی زندگی میں صرف ایک ہی پریس کانفرنس کی تھی، اس پریس کانفرنس میں گورنر مغربی پاکستان مرحوم ملک امیر محمد خان نے صحافیوں کو جن غیر مناسب الفاظ سے مخاطب کیا تھا ، وہ الفاظ ملک امیر محمد خان کی زندگی میں ملک کے کسی صحافی نے قلم بند نہیں کئے تھے یا یوں کہہ لیں کہ ان الفاظ کو حذف کر دیا گیا تھا ۔
معا شرہ اور قومیں عدم برداشت کے بھنورمیں دھنس جائیں تو معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے ، معاشرتی برائیوں کو افہام و تفہیم سے حل کرنا ہی اصل قیادت کی خوبی ہے ، لمحہء فکریہ ۔
٭…٭…٭