جریدہ ’’رنگِ ادب‘‘ کراچی سے شائع ہونے والا کتابی سلسلہ ہے۔ اسکے تحت چند بڑی اور قد آور ادبی شخصیات کے خصوصی نمبر بھی شائع کیے گئے جن میں ڈاکٹر طاہر سعید ہارون، شاعر صدیقی، عارف شفیق، فضا اعظمی، مولانا اقبال سہیل، پروفیسر جاذب قریشی، مرزا غالب، شاہدہ لطیف اور شمس الرحمن فاروقی شامل ہیں۔
تازہ شمارہ 58-59 اکرم کنجاہی نمبر ہے۔ اکرم کنجاہی کا شمار اس دور کے عبقری شعرا، ناقدین اور محققین میں ہوتا ہے۔ انکی اب تک 22 کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں، جن میں تنقیدی کتب کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ بہترین مقرر بھی ہیں اور فن تقریر پر انکی کتابیں ہیں۔ انگریزی، اردو اورپنجابی تین زبانوں میں لکھتے ہیں۔ آپ سہ ماہی جردیہ ’’غنیمت‘‘ کی ادارت بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ پیشہ کے لحاظ سے سینئر بینک ایگزیکٹو ہیں۔ انکی پیدائش اور ابتدائی تعلیم کنجاہ (ضلع گجرات) میں ہوئی۔ بسلسلہ ملازمت 1993ء میں کراچی شفٹ ہوئے اور پھر مستقل قیام کراچی ہی میں ہے۔ ’’رنگ ادب‘‘ کے مدیر اعزازی شاعر علی شاعر ہیں۔ اکرم کنجاہی نمبر 14 ابواب پر مشتمل ہے جس میں ان کا تفصیلی انٹرویو بھی شامل ہے۔ ابتدا میں ان کا خاکہ اور دیگر ابواب میں یہ حیثیت نثر نگار، بہ حیثیت شاعر، ایک ادبی مقرر اور دانشور، اکرم کنجاہی کے فکروفن پر اخباری کالم، اخباری و کتابی تبصرے، مختصر آرا، منظوم خراج احساس، کلام سے انتخاب (غزلیں، نظمیں، انگریزی نظمیں) نثر سے انتخاب، سوانح حیات، یادگار اور نادر تصاویر۔ یہ خصوصی شمارہ 495 صفحات پر مشتمل ہے۔ آخر میں 16 صفحات پر اکرم کنجاہی کی مختلف شخصیات اور ادبی تقریبات کی رنگین تصاویر شائع کی گئی ھیں۔ یوں یہ شمارہ 500 سے زائد صفحات پر مبنی ہے۔ اکرم کنجاہی کی پیدائش مارچ میں ہوئی۔ انکی شخصیت اور فن پر خصوصی شمارہ مارچ ہی میں شائع ہوا ہے۔ یوں شاعر علی شاعر کی طرف سے یہ انکی سالگرہ کے موقع پر ارمغان ہے۔ 23 مارچ کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے۔ آج سے 82 برس قبل اسی روز قرارداد پاکستان منظور ہوئی اور اسی ماہ پاکستان پلاٹینم جوبلی (75 ویں سالگرہ) منائی جائیگی۔ 16 دسمبر 2021ء میں جیم خانہ کلب گجرات میں ان کی دس کتابوں کی تعارفی تقریب ہوئی۔ اس خصوصی شمارے میں اکرم کنجاہی کے بارے میں ڈاکٹر افضل راز اور ڈاکٹر اظہر محمود چودھری کے پنجابی مضامین شامل ہیں۔ ان دونوں حضرات کا تعلق انکے آبائی شہر گجرات سے ہے۔ انھوں نے کراچی سے پنجابی ٹی وی چینل ’’اپنا‘‘ پر 2007 اور 2008 ء میں ادبی مبصر کی حیثیت سے ’’سولو‘‘ پروگرام پیش کیے۔ اپنے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے بہادر لوگ اچھے لگتے ہیں۔ بزدل ناپسند ہیں اورمنافقوں سے نفرت کرتا ہوں۔ بزدل برداشت ہو جاتے ہیں مگر منافقت کرنیوالوں پر غصہ آتا ہے۔ منافقین جہنم ے سب سے نچلے درجے میں ہونگے۔ کم صلاحیت مگر ذمے دار میرے ساتھ چل سکتے ہیں مگر کام چور برداشت نہیں ہوتے‘‘ انکے خیال میں پاکستان اس وقت بے شمار مسائل کا شکار ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ توانائی کا بحران ہے۔ تعلیم اور صحت کا شعبہ کسی طور پر نجی ہاتھوں میں نہیں دیا جانا چاہیئے۔ سی پیک کا منصوبہ انتہائی اہم ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی کی ایک کثیر تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ چیز ہمارا اثاثہ ہے۔ ان شاء اللہ ایک دن ضرور ہمارے وطن کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہو گا۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ سب بیٹیوں کیلئے انکی غزل کے دو اشعار ملاحظہ کریں:۔؎
رنگ گہرا ہو نصیبوں میں کہ گہرا بھی نہ ہو
ایک بیٹی کی ہتھیلی تو حنا مانگتی ہے
بوئے گل کے وہ تقاضے ہیں کہ دل کانپتا ہے
میری گڑیا ہے کہ پھولوں کی قبا مانگتی ہے
اس خصوصی شمارے میں اکرم کنجاہی کی شخصیت اور فن پر اخباری کالم شامل ہیں۔ انکی کتب پر ’’نوائے وقت‘‘ میں شائع ہونیوالے میرے چند کالم بھی شامل اشاعت کیے گئے ہیں۔ میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ اکرم کنجاہی ادب برائے زندگی کے قائل ہیں۔ انکے نزدیک شاعری کو صرف گل و بلبل یا محبوب کے رخساروں کی تعریف تک محدود نہیں ہونا چاہیئے۔ اس میں ہمارے اردگرد کے مسائل بھی بیان ہوتے ہیں۔ اکرم کنجاہی کے کلام سے انتخاب:۔؎
گروی پڑی ہے سانس کی ڈوری مری ابھی
دن تو پھرے نہیں مرے قرضوں کے باوجود
٭٭٭
چھت آرزو کی گر گئی اکرمؔ گھروندے کی
رسوائی کا ہے خوف تو ملبا سمیٹ لو
٭٭٭
کافی مری خاکسترِ جاں شمع نہیں ہے
کیا دیکھنا باقی ہے ابھی میری لگن اور
٭٭٭
حال تنکوں کا بگولوں میں جو دیکھا ہوتا
ہم زمیں زاد، زمیں سے نہ بغاوت کرتے