دو جماعتی نظام،کتنا اہم، کتنا ضروری

Mar 16, 2022

کسی ملک میں جب سیاسی استحکام نہیں رہتا تو اُس ملک کی بقاء اور سا لمیت کو بڑے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ سیاسی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ دو جماعتی نظامِ سیاست قائم ہو۔ جہاں دو جماعتی نظامِ سیاست ہوتا ہے، وہاں نہ مسائل بڑھتے ہیں، نا تلخیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔دو جماعتی نظامِ سیاست کیا ہے، کوشش کرتے ہیں اس پر سیر حاصل بحث ہو اور سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ دو جماعتی سیاسی نظام حقیقت میں ہے کیا۔ یہ کیوں اتنا اہم اور ضروری ہے۔ 1947ء میں جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو اس کامیابی کا سارا سہرا پاکستان مسلم لیگ کے سر تھا جو ہندوستان کی واحد سیاسی جماعت تھی۔پاکستان اُس وقت دو حصوں پر مشتمل ایک ملک تھا۔ ایک حصّہ مغربی پاکستان جبکہ دوسرا مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ انکے مابین کم و بیش ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ 60ء کی دہائی میں بنگالی لیڈر شیخ مجیب الرحمن ’’عوامی لیگ ‘‘ کے نام سے مشرقی پاکستان میں ایک سیاسی جماعت تشکیل دے چکے تھے جبکہ مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے ایک اور سیاسی جماعت اپنی بنیاد رکھ چکی تھی۔ جس کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو تھے جو صدر جنرل (ر) محمد ایوب خاں کی کابینہ سے بطور وزیر خارجہ استعفیٰ دینے کے بعد اس نئی سیاسی جماعت کی تشکیل اور بنیاد کا باعث بنے۔جب صدر جنرل (ر) محمد ایوب خان کے اقتدار کا سورج غروب ہواتو جنرل یحییٰ خان اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہو گئے۔ انہی کے دورِ اقتدار میں سانحہ ڈھاکہ ہوا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن کر ہم سے جاتا رہا۔ 1971ء کی جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو جب برسرِ اقتدار آئے تو طویل آمرانہ دورِ حکومتوں کے بعد پاکستان میں ایک جمہوری دورِ حکومت کا آغاز ہوا۔ پیپلز پارٹی ہی کے دورِ حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کا بطور وزیراعظم بڑا کارنامہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینا اور 1973ء کا متفقہ آئین تھا۔ اس آئین کی دستاویز پر اس وقت کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے متفقہ طور پر دستخط کئے۔ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے  اسلام اور اے این پی سیاسی طور پر اس وقت بہت متحرک تھیں۔ پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ اس دور میں زیادہ فعال نہیں رہی تھی اور اُس کے دو، تین گروپ بن چکے تھے۔ اسی لیے دیگر جماعتوں کو سیاسی میدان میں کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا اور انہوں نے سیاست میں اپنی جگہ بنا لی۔ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدارختم ہوا اور جنرل ضیاء الحق برسرِ اقتدار آئے تو کراچی میں الطاف حسین بطور سٹوڈنٹ لیڈر مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ مہاجر قومی موومنٹ کی سیاسی سرگرمیاں بڑھیں تو کراچی سمیت سندھ کے دیگر کئی شہروں میں جہاں اردو بولنے والے کثرت سے موجود تھے، مہاجر قومی موومنٹ کی سیاسی سرگرمیوں کو پذیرائی حاصل ہونے لگی۔ جماعت اسلامی جو خالصتاً ایک مذہبی جماعت تھی، سیاسی جماعت کے طور پر اُس نے بھی سیاسی میدان میں اپنی انٹری ڈال دی جبکہ جمعیت علمائے اسلام نے بھی جو سخت مذہبی رجحانات کی حامل جماعت تھی، سیاسی جماعت کے طور پر سیاسی افق پر نظرآنے لگی لیکن اُس کا حلقۂ احباب صرف خیبرپختونخوا رہا۔ کے پی کے میں عوامی نیشنل پارٹی بھی ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر نظر آئی جس کی قیادت پہلے عبدالغفار خاں عرف باچا خاں نے سنبھالی لیکن اُنکے انتقال کے بعد اسکی سربراہی خان عبدالولی خان کے ہاتھ میں آ گئی۔ پنجاب کو دیکھیں تو یہاں علامہ طاہر القادری نے اپنی پہچان ایک مستند مذہبی سکالر کے طور پر کرائی انہوں نے عوامی تحریک کے نام سے ایک سیاسی جماعت تشکیل دی۔ لاہور سے جنرل الیکشن میں بھی حصّہ لیا۔ ایک بار جیت کر نیشنل اسمبلی میں بھی پہنچے لیکن دوسری بار الیکشن ہار گئے۔پیر پگاڑا کے نام سے کون واقف نہیں۔ سندھ کی روحانی شخصیت کے طور پر مشہور ہوئے۔ پھر فنکشنل مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے لگے۔ تحریک لبیک اگرچہ خالصتاً مذہبی جماعت ہے لیکن سیاسی رجحانات کے باعث اُس نے بھی عام انتخابات میں حصہ لیا بلکہ کراچی سے اُنکے ایک امیدوار نے نیشنل اسمبلی کی سیٹ بھی جیتی۔چودھری پرویز الٰہی مسلم لیگ (ن) سے الگ ہوئے تو انہوں نے مسلم لیگ (ق) بنا لی۔ شیخ رشید بھی نواز شریف سے الگ ہوئے تو عوامی مسلم لیگ کا قیام عمل میں لائے۔ اعجاز الحق نے بھی نواز شریف اور اُن کی جماعت سے ناطہ توڑ کر مسلم لیگ (ضیائ) بنائی پیپلز پارٹی کو آمروں نے دھڑوںمیں تقسیم کیا تو اسکے کئی گروپ بن گئے ۔ بانی رکن حیات شیر پائو اور فیصل صالح حیات بھی پیپلز پارٹی سے الگ ہوئے تو اپنے گروپ تشکیل دئیے۔ بلوچستان میں اکبر بگٹی اور اختر مینگل بھی اپنی اپنی جماعت تشکیل دیکر علاقائی سیاست کرنے لگے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کا جائزہ لیں تو آپکو کم و بیش چالیس سے زیادہ جماعتیں رجسٹرڈ نظر آئینگی جن میںتحریک انصاف بھی شامل ہے۔ عمران خان کرکٹ سے ریٹائرہوئے تو تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ اسکے سربراہ کی حیثیت سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور اب وہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ان میں صرف تین جماعتیں ایسی ہیں جنہیں آپ قومی سطح کی سیاسی جماعتیں کہہ سکتے ہیں۔ چار دہائیاں گزر گئیں۔ ہم نے ان چار دہائیوں میں سیاست کے بہت سے نشیب و فراز اور اتار چڑھائو دیکھے۔ تاریخ سے آگہی رکھنے والے جانتے ہونگے کہ جب تک سنگل یا دو جماعتی نظام ِ سیاست رہا ، ملکی سیاست بہت احسن طریقے سے چلتی رہی، ہم کبھی بھی سیاسی سرگرمیوں کے مخالف نہیں رہے لیکن ایسی آئین سازی ضرور ہونی چاہیے جو ایسی ہر جماعت پر قدغن لگائے جن کا دفتر صرف ایک کمرے تک محدود ہو۔ اس سے ’’سیاسی گند‘‘ صاف ہو گا۔  مطلوبہ قانون سازی نہ ہوئی تو سیاست میں ’’سیاسی انارکی‘‘ پھیلنے کے شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ملک میں دو جماعتی سیای نظام قائم کر دیا جائے تو مستقبل میں ہمیں بہت اچھے ثمرات مل سکتے ہیں۔

مزیدخبریں