عدم اعتما دلانے والوں کا اگلا الیکشن بھی گیا: وزیراعظم

Mar 16, 2022


اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن کا شکریہ کہ ان کی وجہ سے لوگ مہنگائی، ٹماٹر، پیاز کی قیمتیں بھول گئے اور میری جماعت اکٹھی ہو گئی۔ اوورسیز پاکستانیوں کے کنونشن سے خطاب  میں عمران خان نے کہا کہ مہنگائی کا سمندر ہے۔ سارا وقت ہم پر بوجھ پڑا رہتا تھا اور ہم سارا وقت سوچتے تھے کہ کیا کریں، آج میں اپوزیشن جماعتوں کا دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے لوگوں کو ٹماٹر اور پیاز کی قیمتیں بھلا دیں، ان کی وجہ سے میری جماعت اکٹھی ہو گئی۔ اپوزیشن نے مجھ پر احسان کیا اب انہیں برا بھلا نہیں کہوں گا۔  فضل الرحمن کا نام ڈیزل ہم نے نہیں بلکہ ن لیگ نے رکھا تھا اور وہ ا س لیے کہ فضل الرحمان ڈیزل کے پرمٹ کے نام پر پیسے بناتا تھا، اب یہ ’’تھری سٹوجز‘‘ میرے خلاف جمع ہو گئے ہیں۔ یہ لوگ کپتان کے ٹریپ میں آ گئے۔ دیکھیں ان کے ساتھ ہوتا کیا ہے۔ اپوزیشن جال میں پھنس گئی۔ صرف عدم اعتماد ناکام نہیں ہو گی یہ 2023ء کا الیکشن بھی ہاریں گے۔ وزیراعظم کی تقریر کے دوران ہال  سے ڈیزل‘ ڈیزل کے نعرے لگے جس پر عمران خان نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ان کا شکریہ ادا کرنے دیں کیونکہ انہوں نے میری پارٹی کو کھڑا کر دیا۔ 
 نواز شریف جنرل جیلانی کی چھتوں پر سریا لگاتے لگاتے وزیراعلیٰ بنا، فضل الرحمن تیس سال سے دین بیچ رہا ہے، فضل الرحمن کا نام ڈیزل ہم نے نہیں بلکہ ن لیگ کے ایک رنگ باز نے ڈیزل رکھا اور وہ اس لیے کہ فضل الرحمان ڈیزل کے پرمٹ کے نام پر پیسے بناتا تھا۔ پیپلز پارٹی، ن لیگ اور فضل الرحمن ایک دوسرے کو چور کہتے تھے اور اب یہ ’’تھری سٹوجز‘‘ میرے خلاف جمع ہوگئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ملک بچانا ہے، اگر انہیں ملک بچانا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ ڈوب جائیں۔ امریکا اپنے ملک میں بمباری اور ڈرون کی اجازت نہیں دیتا اور ہمارے ملک پر ڈرون حملے کیے جس میں کتنے بے گناہ مارے گئے جبکہ حکمران کچھ نہیں بولتے تھے جو کہ پیسے کے غلام ہیں، یہ لوگ اپنا پیسہ بچانے کے لیے ملک بیچ دیں گے، میں امریکا، برطانیہ اور بھارت کا مخالف نہیں، میں کسی ملک کے خلاف نہیں بلکہ اس کی پالیسیوں کے خلاف ہوں۔ ڈان لیکس میں ن لیگ نے بھارت کو پیغام دیا کہ ہماری فوج غلط ہے اور نواز شریف آپ کے ساتھ ہے، مودی نواز شریف کی تعریف کرتا تھا اور اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف کو دہشت گردوں کا سربراہ کہتا تھا۔ اگر آج ایسا ہو تو یہ میرے لیے بڑے شرم کی بات ہے۔ اوورسیز پاکستانی ملک کا اثاثہ ہیں، میں چاہتا ہوں اوورسیز پاکستانی ملک میں سرمایہ کاری کریں۔ اسی لیے انہیں پانچ سال تک ٹیکس کی چھوٹ دی ہے، پاور آف اٹارنی ڈیجیٹل کرا دی ہے اور اب انہیں مزید آسانیاں فراہم کریں گے۔ انہوں نے چیلنج کیا کہ ساڑھے تین سال کے ان مشکل حالات میں جو کام ہماری حکومت نے کیا گزشتہ کسی حکومت نے اتنا کام نہیں کیا، برآمدات بڑھائے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا، آج پاکستان کی ریکارڈ ایکسپورٹ ہورہی ہیں جو ہماری توقعات سے بھی زیادہ ہیں۔ اسی طرح ریمی ٹینس بھی بہت زیادہ ہوگئی ہیں جبکہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ٹیکس کلیکشن بھی ہم نے کی۔ میں ملک میں سالانہ آٹھ ہزار ارب سے زائد ٹیکس کلیکشن کرکے دکھاؤں گا۔ ساری اپوزیشن کو چیلنج ہے کہ تم ان ہی کاموں میں ہمارا مقابلہ کرو، ہم ہر چیز میں تم سے آگے ہیں، ہم پہلی بار ملک میں تعلیمی نصاب ایک لے کر آئے ہیں، ہیلتھ انشورنس دی جو کہ غریب کا تصویر بھی نہیں، اسی لیے ڈاکوؤں کے ٹولے کو ڈر ہے کہ اگر یہ ایسا ہی کرتے رہے تو دوبارہ آجائیں گے، پچاس سال سے ملک میں کوئی ڈیم نہیں بنا، اب 2025ء  تا 2028ء  مہمند، داسو اور دیگر ڈیمز بن جائیں گے جو ملک کا پانی کا مسئلہ حل کریں گے۔ پہلی بار ہوا ہے کہ  ہم نے نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کے خلاف عالمی سطح پر مذمت کی بیانات دیئے‘ اقوام متحدہ میں اس معاملے کو اجاگر کیا‘ فضل الرحمن نے جو اسلام کی دکان لگائی ہوئی ہے بتائیں کیا انہوں کبھی مغرب کے کسی چپڑاسی سے بھی اس حوالے سے مذمت کی؟ ہم نے اسلاموفوبیا کو عالمی سطح پر اجاگر کیا اسلاموفوبیا کو یہاں موجود پاکستانی نہیں جانتے بلکہ اوورسیز پاکستانی جانتے ہیں ۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ تھری سٹوجز نے ملک کو بچانا ہے تو بہتر ہے عمران خان کے ساتھ ڈوب جاؤ۔ جب سے لوگوں نے ان تھری سٹوجز کی شکلیں دیکھی ہیں اور جب عدم اعتماد کیا ہے تو اب لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف نواز شریف اور شہباز شریف، دوسری طرف آصف زرداری ہے۔ میرے حلقوں سے آوازوں آنی شروع ہوئی ہیں اور 27 تاریخ کو سارے اسلام آباد کا رخ کر رہے ہیں۔ اس لیے مجھے ان کا شکریہ ادا کرنے دیں، جیسے لوگوں نے دیکھا کہ یہ تین شکلیں ایک طرف، پھر فضل الرحمٰن، میں سوچ رہا تھا کہ 10 دنوں میں ہوا کیا ہے کہ ایک دم ملک بدل کیسے گیا، میری پارٹی کھڑی ہوگئی، سارا ملک مہنگائی اور سب کچھ بھول گیا ہے۔ میں نے جب غور کیا تو ہوا کیا کہ جب یہ تینوں اکٹھے ہوئے تو مسلم لیگ (ن) ہے، نواز شریف کے لوگوں کو انہوں نے یہ بتایا کہ زرداری سے کرپٹ آدمی پاکستان میں کوئی نہیں ہے، دو دفعہ اس کو جیل میں ڈال دیا۔ ادھر زرداری نے پیپلزپارٹی کو یہ بتایا کہ نواز شریف سے کرپٹ کوئی آدمی نہیں ہے، اس پر حدیبیہ پیپر ملز کا کیس بنایا، وہ یہ تھا کہ یہاں سے منی لانڈرنگ کرکے پیسہ باہر لے جاتے تھے، ادھر جعلی اکاؤنٹ بنا کر پیسہ واپس لے کر آتے تھے۔ یہ کیس شریفوں پر زرداری نے بنایا تھا، فضل الرحمن کی پارٹی سمجھتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) چور ہے، مسلم لیگ (ن) سمجھتی ہے کہ پیپلزپارٹی چور اور فضل الرحمن ڈیزل ہے، پیپلزپارٹی نواز شریف کو چور اس کو ڈیزل سمجھتی ہے۔ لہٰذا بہت بہت شکریہ، اس ملک میں یہ اللہ کا خاص کرم ہوا کہ یہ تینوں اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے میرے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اس دن دو نفل پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کیا، اس لیے کیا کہ جب حکومت آئی ہے، ساڑھے تین سال میں تنگ آگیا تھا کہ کل حکومت گئی، پرسوں حکومت گئی، آج گئی، نااہل ہے، سلیکٹڈ ہے، تو اب یہ تینوں نے اکٹھے ہو کر جو کیا ہے، یہ تینوں اب کپتان کی بندوق کی نشست کے بیچ آگئے ہیں۔ انہوں نے وہ کام کردیا ہے کہ میں دعا کر رہا تھا کہ اللہ یہ غلط فہمی میں پڑیں کہ شاید قوم ان کے ساتھ کھڑی ہوجائے گی، یہ پاکستانی قوم کو جانتے نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے سیاست تو صحیح نہیں کی۔ ابھی آپ نے پوری فلم دیکھی، ایک پارٹی نے گراس روٹ سے کھڑے ہو کر تھوڑے سے لوگوں سے مہم چلا کر، عوام میں جا کر محنت کر کے ماریں کھا کر مشکلیں دیکھ کر یہاں پہنچے ہیں اور یہ ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔ عوام کو ایک چیز سمجھ جائیں کہ لوگ مشکل وقت، عالمی مہنگائی کے اندر مشکل میں ہے لیکن یہ ان کو غلط فہمی ہوگئی ہے لوگ مشکل میں ہیں اور لوگ ان تین چہروں کی کرپشن بھول چکے ہیں اور اسی غلط فہمی میں پڑ گئے ہیں۔ یہ کپتان کے ٹریپ میں آگئے ہیں اور اب آپ دیکھیں گے کہ ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ میں پیش گوئی کر رہا ہوں کہ ان کی صرف عدم اعتماد ناکام نہیں ہوگی بلکہ ان کا 2023 کا الیکشن بھی گیا۔ سمندر پار پاکستانیوں سے مخاطب ہو کر انہوں نے کہا کہ چونکہ میں بھی 20 سال سمندر پار پاکستانی رہا ہوں، میرا کرکٹ اور پھر شوکت خانم کی وجہ سے میرا سب سے زیادہ سمندر پار پاکستانیوں کے ساتھ رابطہ رہا ہے۔ میں ان کی مشکلیں جانتا ہوں، میں ان کا تعاون جانتا ہوں، میں یہ جانتا ہوں کہ جب ایک پاکستانی ملک سے باہر جاتا ہے تو اس کو اپنا ملک یاد آتا ہے، پھر اپنے ملک کی صحیح معنی میں پتہ چلتا ہے کہ یہ ملک اللہ کا کتنا بڑا تحفہ ہے۔ پھر اس کو اندر سے تکلیف ہوتی ہے، کہ ہمارا ملک کیوں اوپر نہیں جاتا، دنیا اوپر جارہی ہے لیکن ہمارا ملک کیوں پیچھے رہ گیا، اس لیے اس کو اس بات کا درد ہوتا ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ ہمارے لیڈر پیسہ چوری کرکے لندن میں بڑے محلات بناتے ہیں تو اس کو زیادہ تکلیف ہوتی ہے کیونکہ اس نے محنت سے پیسہ کمایا ہوتا ہے۔ انہوں نے باہر جا کر اپنی بیوی بچوں کا پیٹ پالنے، ان کو اچھے سکولوں میں تعلیم کے لیے 12،12 گھنٹے کام کرتا ہے۔ اس لیے جب وہ دیکھتے ہیں کہ لندن کے سب سے مہنگے علاقے مے فیئر میں رہتے ہیں، بڑے بڑے محلات میں رہتے ہیں، بڑی بڑی گاڑیاں چلاتے ہیں، رات کو جوا کھیلنے کے لیے کسینوز میں یہ بھرے ہوئے ہوتے ہیں تو تکلیف ہوتی ہے۔ وہ محنت کرتے ہیں، یہ اپنے ملک کا پیسہ چوری کرکے باہر لے جاتے ہیں، ہمارے بیرون ملک پاکستانی باہر سے کمائی کرکے پاکستان پیسہ بھیجتے ہیں اور ہمارے دور میں ریکارڈ ترسیلات ہوئی ہیں۔ دعا کرتے ہیں بھارت میں ایسی حکومت آئے جو کشمیری مسلمانوں کو حقوق دے۔ کسی ملک کے نہیں اس کی پالیسیوں کے خلاف ہو سکتے ہیں۔ ہندوتوا فلسفہ ہے کہ مسلمان اور عیسائی برابر کے شہری نہیں ہیں۔ بھارت میں فاشزم  ہے۔ میڈیا اور ججوں میں خوف ہے۔ حسین حقائق وہاں میسیج کرتا ہے کہ زرداری کو فوج سے بچا لو۔ یہ میمو گیٹ تھا۔ فوج طاقتور نہ ہوتی تو ملک کے تین ٹکڑے ہو چکے ہوتے ۔ آصف زرداری نے امریکہ میں حسین حقانی کو سفیر رکھا تھا۔ شام‘ لیبیا‘ افغانستان‘ عراق‘ یمن‘ صومالیہ میں کیا ہوا۔ ہماری ایسی فوج ہے جو اپنے ملک کا دفاع کر سکتی ہے۔  ذوالفقار علی بھٹو سے کئی اختلاقات ہیں لیکن آج یہ کہنا ہوگا کہ وہ خود دار لیڈر تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو مسلمانوں کی غیرت کیلئے کھڑا ہوا۔ ہم بھی چاہتے ہیں بھارت میں اچھی حکومت آئے،  وہ مسلمانوں کے حقوق دے۔ اگر بھارت 5 اگست کا اقدام واپس لے تو پھر بات کر سکتے ہیں۔ میں امریکہ کی جنگ پالیسی کے خلاف تھا اور ہمیشہ رہوں گا۔ انڈیا کی فلاسفی ہے کہ بھارت صرف ہندو کیلئے ہے۔  بھارت کے پڑھے لکھے لوگ مودی کی پالیسیوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ بھٹو کسی کا غلام نہیں تھا اس لئے لوگ اس پر فخر کرتے ہیں۔ جب کوئی لیڈر ملک کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو امریکی اس کی عزت کرتے ہیں۔ افغان جہاد ختم ہوا تو پاکستان پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کو ہماری ضرورت پڑی۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں 80 ہزار پاکستانیوں  نے جانیں دیں۔ کسی نے 80 ہزار جانوں کا نذرانہ دینے پر ہمارا شکریہ نہیں کیا۔ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلوایا۔ میں تو کہتا ہوں اوورسیز پاکستانیوں کو الیکشن بھی لڑنا چاہئے۔ چاہتا ہوں اوورسیز پاکستانی ملک میں سرمایہ کاری کریں۔ علاوہ ازیں  وزیراعظم  سے پی ٹی آئی  سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی نے ملاقاتیں کیں اور مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ ملاقاتوں میں حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں پر پیش رفت اور سیاسی امور زیر غور آئے۔ وزیراعظم  نے کہا  کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کا اندازہ حالیہ جلسوں میں عوام کی شمولیت سے لگایا جاسکتا ہے، پی ٹی آئی حکومت نے ہمیشہ انصاف وقانون کی بالادستی اور غریب کی فلاح کے لیے کام کیا، حکومت نے مشکل فیصلے لے کر معیشت کو ترقی کی راہ پرگامزن کیا۔ غریب طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے حکومت بھاری سبسڈی برداشت کر رہی ہے، وزیراعظم سے ملاقات کرنے والے ارکان قومی اسمبلی میں لال چند، شنیلا روتھ، جے پرکاش، جمشید تھامس، چوہدری محمد عدنان، اعجاز خان جازی، صاحبزادہ صبغت اللہ، محبوب شاہ، محمد بشیر خان، جنید اکبر، ملک انور تاج، ناصر خان موسیٰ زئی، صالح محمد، مجاہد علی، شہریار آفریدی، ملک فخر زمان خان، خرم شہزاد، روبینہ جمیل، راحت امان اللہ بھٹی، ملک کرامت علی کے علاوہ رائے مرتضیٰ اقبال، ظہور حسین قریشی اور وزیر سیفران صاحبزادہ محبوب سلطان شامل تھے۔ سینئر پارٹی رہنماؤں سے بھی مشاورت کی اور سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ عمران خان سے گورنر سندھ عمران اسماعیل‘ اسد عمر‘ شفقت محمو‘ علی امین گنڈاپور اور فہمیدہ مرزا نے ملاقاتیں کیں جس میں سیاسی صورتحال پر بات کی گئی۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کی جس میں پنجاب کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے وزیراعظم کو ارکان سے ملاقاتوں پر بریفنگ دی۔

مزیدخبریں