عاشقان عمران خان صاحب نے ثابت کردیا ہے کہ جدید ترین جاسوسی آلات اور ”مناسب“ تربیت کے ہوتے ہوئے بھی اسلام آباد پولیس کی بھیجی ٹیم پنجاب حکومت کی تمام تر معاونت کے باوجود ان کے قائد کو گرفتار نہیں کرسکتی۔منگل کے دن کئی گھنٹوں تک سابق وزیراعظم کے لاہور کے زمان پارک میں موجود آبائی گھر میں داخلے کی بارہا کوششیں ہوتی رہیں۔تحریک انصاف کے کارکنوں نے مگر انسانی ڈھال بناکر مذکورہ گھر کو ناقابل تسخیرقلعہ میں بدل دیا۔واٹر کینن اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال بھی عمران خان صاحب کے گرد بنائے حصار میں شگاف لگانے میں ناکام رہا۔پولیس کو محض ڈنڈوں کے استعمال سے تحریک انصاف کے کارکنوں نے ایک مخصوص مقام سے آگے بڑھنے ہی نہیں دیا۔
اپنے گھر کے باہر کئی گھنٹوں تک جاری رہے پولیس مقابلے کے باوجود سابق وزیر اعظم انتہائی سکون اور اعتماد سے سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کی بدولت ”قوم سے براہِ راست“ خطاب بھی فرماتے رہے۔عالمی میڈیا بھی ان سے مسلسل رابطے میں رہا۔مذکورہ رابطے نے عمران خان صاحب کو پورے عالم کو یہ پیغام پہنچانے میں مدد فراہم کی کہ پاکستان ان دنوں مبینہ طورپر ”فسطائی نظام“ کے قبضے میں ہے۔ہماری پولیس ”فسطائی حکمرانوں“ کے حکم پر ”نہتے اور پرامن“ شہریوں کی زندگی اجیرن بنائے ہوئے ہے۔عوام کے مقبول ترین رہ نما کے خلاف بے بنیاد الزامات لگاکر عدالتوں سے ان کی گرفتاری کے وارنٹ حاصل کرلئے جاتے ہیں۔
”نظام کہنہ“ کے اسیر”پرانے پاکستان“ میں عمران خان صاحب جیسے قدآور سیاستدان ہر حوالے سے بے بنیاد نظر آتے الزامات کے تحت بنائے مقدمات کے حوالے سے گرفتار ہونے سے گھبراتے نہیں تھے۔پولیس انہیں گرفتار کرنے جاتی تو ہنستے مسکراتے اور وکٹری کے نشان بناتے ہوئے خود کو ”سرنڈر“ کردیتے۔عمران خان صاحب نے کامل استقامت سے مذکورہ روایت کے پرخچے اڑادئے ہیں۔اندھی نفرت وعقیدت سے بالاتر ہوکر سوچیں تو عمران خان صاحب کی ”جھوٹے مقدمات“ کے خلاف مزاحمت روایت شکن ہونے کے علاوہ دیگر سیاستدانوںکو یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ اگر وہ خود کو واقعتا بے گناہ تصور کرتے ہیں تو ہنستے مسکراتے گرفتاری کیوں دی جائے۔ گرفتاری کے بعد ضمانت کے حصول اور بعدازاں بے بنیاد الزامات کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے عدالتوں میں کئی برسوں تک پیش ہونا پڑتا ہے۔ایسے غیر منصفانہ نظام کو مزید برداشت کیوں کیا جائے؟ گرفتاری سے انکار کی جرا¿ت دکھانے کے لئے مگر عوام کی حمایت بھی لازمی ہے۔”اقتدار میں باریاں“ لینے والے پرانے سیاستدانوں کو مطلوبہ حمایت تاہم کبھی نصیب نہیں ہوپائی۔اسی باعث سرجھکائے گرفتاریاں دیتے رہے۔
عمران خان صاحب ویسے بھی وطن عزیز کے واحد سیاستدان ہیں جنہیں ہماری اعلیٰ ترین عدالت نے ”صادق وامین“ ٹھہرارکھا ہے۔ان کے برعکس ایک سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اسی عدالت نے قاتل ٹھہراتے ہوئے پھانسی پر لٹکانے کا حکم صادر کیا تھا۔نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے ۔وہ اسی عدالت کے ہاتھوں ”خائن اور جھوٹا“ قرار پاکر سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نااہل ہوچکے ہیں۔عمران خان کے لئے ”صادق وامین“ کی سند مگر تاحیات مستند ومو¿ثر ہوتی نظر آرہی ہے۔
مذکورہ بالا حقائق کو نگاہ میں رکھتے ہوئے موجودہ حکومت کے علاوہ ریاست کے دائمی اداروں میں بیٹھی چند ”مقتدر“ قوتوں کو بھی عمران خان صاحب پر ہاتھ ڈالنے سے قبل سوبار سوچنا چاہیے تھا۔انہیں یہ دریافت بھی کرلینا چاہیے تھا کہ پاکستان اب بدل چکا ہے۔ہماری آبادی کا 60فی صد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ”وہ نظام کہنہ“ سے اُکتائے ہوئے ہیں۔ عمران خان صاحب ان کے دلوں میں نسلوں سے پلتے غصے اور اضطراب کے واحد ترجمان کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ان کی خواہش کا احترام اب حکومت اورریاست کے لئے واجب ہوچکا ہے۔
عمران خان صاحب مصر ہیں کہ ان کی حکومت کو امریکی سازش کے ذریعے ہٹایا گیا تھا۔ہماری ریاست کے ”میر جعفروں“ نے مذکورہ سازش کامیاب بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ قومی اسمبلی میں عمران مخالف جماعتوں نے باہمی اختلافات بھلاکر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔وہ کامیاب ہوگئی تو شہباز شریف جیسے ”مبینہ”چور ،لٹیرے اور منی لانڈر“ وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھادئے گئے۔ہمارے عوام کی اکثریت شاید مذکورہ تبدیلی کو برداشت کرلیتی۔ ”امپورٹڈ حکومت“ مگر اقتدار سنبھالتے ہی بجلی،گیس اور پیٹرول کی قیمتوں کو عوام کے لئے ناقابل برداشت بنانے میں مصروف ہوگئی۔عوام کی معاشی اعتبار سے ز ندگی اجیرن بناتے ہوئے جواز یہ گھڑا گیا کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جارہا ہے۔دیوالیہ بچانے کے نام پر لئے اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف مگر ”مزید“ کا تقاضہ کئے چلا جارہا ہے۔ہماری معیشت کو سہارا دینے کے لئے ایک ارب ڈالر کی قسط ادا نہیں کی جارہی۔سمندروں سے گہرے دوست اور تیل کی بدولت سے مالا مال ”برادر ملک“ بھی ہمیں ”خیراتی مدد“ فراہم کرنے کو اب آمادہ نہیں ہیں۔ایسے ماحول میں بھان متی کا کنبہ دِکھتی شہباز حکومت کے لئے اقتدار میں بیٹھے رہنے کا جواز باقی نہیں رہا۔وطن عزیز کو مزید خلفشار سے بچانے کے لئے واحد راستہ یہی بچا ہے کہ شہباز حکومت مستعفی ہوکر قومی اسمبلی تحلیل کرے۔عمران خان صاحب اس اقدام کے بعد تھوڑی نرمی دکھانے کو آمادہ ہوجائیں گے۔ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کے لئے ایک ہی دن طے کرنے پر رضا مند نہ ہوئے تو بلاجواز ضد کے اسیر ہوئے نظر آئیں گے۔
بہتریہ ہی ہوگا کہ ہمارے تحریری آئین میں ”لچک“ کو ذہن میں رکھتے ہوئے عام انتخاب کی تاریخ رواں برس کے مئی کے آخری ہفتے کے ابتدائی دنوں میں تلاش کرلی جائے۔انتخابات کے بعد جو حکومت برسراقتدار آئے وہی نیا بجٹ تیار کرے۔آئی ایم ایف بھی ”تازہ مینڈیٹ“ سے قائم ہوئی حکومت کی گزارشات پر غالباََ رحمدلی سے غور کرنے کو آمادہ ہوجائے گا۔دوست اور برادر ملک بھی نئی حکومت کی التجائیں کھلے دل سے سن سکتے ہیں۔
نئے انتخاب مو¿خر کرنے کی ضد وطن عزیز میں انتشار وخلفشار کومزید بھڑکائے گی۔ اس کے تدارک کے لئے عمران خان صاحب کے روبرو سرنگوں کرنا پڑے گا۔ انہیں ”قابو“ میں رکھنے کی کوششیں اب تک بری طرح ناکام رہی ہیں۔ انہیں دہراتے رہنا حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔