تعلیمی ادارے اور قومی ترقی


کوئی ملک اپنے تعلیمی اداروں کی بنیاد پر کیسے اور کتنا مضبوط اور مستحکم بن سکتا ہے اس کی بہترین مثال امریکا ہے جو بین الاقوامی سطح پر آج بھی سپر پاور کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا ہے۔ چین کی تمام تر ترقی اور عالمی منڈی اور بین الاقوامی معاملات میں اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے باوجود اب بھی امریکا کی بات سنی اور مانی جاتی ہے۔ امریکا کو یہ جو امتیازی حیثیت حاصل ہے اس کے پیچھے سب سے اہم کردار اس کے تعلیمی اداروں کا ہے۔ ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے دنیا بھر سے ہزاروں افراد ہر سال امریکا کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں ایک قابلِ ذکر تعداد ان افراد کی ہوتی ہے جنھیں امریکا خود وظائف دے کر اپنے ہاں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ وظائف پر امریکا میں پڑھنے اور تربیت حاصل کرنے والے لوگوں کی غالب اکثریت ہمیشہ کے لیے امریکا کے مثبت تاثر کی اسیر ہو کر رہ جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے افراد بہت زیادہ تعداد میں موجود ہیں جو ایک وقت میں امریکا سے تعلیم یا تربیت حاصل کر کے آئے اور اب مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں اہم عہدوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
امریکا کی طرح برطانیہ کے تعلیمی ادارے بھی دنیا بھر میں اپنے معیار کے حوالے سے ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں اور برطانیہ بھی مختلف طرح کے وظائف دے کر کئی ممالک سے افراد کو اپنے ہاں پڑھنے کے لیے مدعو کرتا ہے۔ عالمی سطح پر برطانیہ کا اثر و رسوخ امریکا جتنا نہ سہی لیکن پھر بھی اس کی بات کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں لوگ اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ انھوں نے امریکا یا برطانیہ کے کسی بڑے ادارے سے تعلیم حاصل کررکھی ہے اور وہاں قیام کے دوران بننے والے تعلقات کو بھی وہ زندگی بھر ساتھ چلاتے ہیں۔ ظاہر ہے ان تعلقات کی بنیاد پر دونوں طرف کے افراد کئی فوائد بھی حاصل کرتے ہیں اور کئی مواقع بھی انھیں صرف اس بنیاد پر ملتے ہیں کہ وہ فلاں ادارے سے وابستہ رہے ہیں یا فلاں شخص کے ساتھ ان کے تعلقات ہیں۔ پاکستان میں بیوروکریسی، فوج اور سیاسی قیادت میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کی کسی امریکی یا برطانوی تعلیمی یا تربیتی ادارے یا افراد سے وابستگی زندگی بھر ان کے کام آتی ہے۔
پاکستان میں شاید ہی اس وقت کوئی ایسی یونیورسٹی ہو جس کے وائس چانسلر نے پی ایچ ڈی تک کی ساری تعلیم ملک کے اندر ہی حاصل کی ہو۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن جیسے اداروں میں بھی اہم عہدوں پر ایسے افراد موجود ہیں جنھوں نے غیر ملکی اداروں سے ڈگریاں لیں اور وہ وہاں کے نظامِ تعلیم اور کام کرنے کے طریقوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اس سب کے باوجود پاکستان میں تعلیمی اداروں کا کیا حال ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی تینوں سطح کے اداروں کے لیے جو پالیسیاں بنائی جاتی ہیں اور جیسے ان اداروں کو چلایا جاتا ہے انھیں دیکھ کر واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ تعلیم اس ملک میں کسی کی بھی ترجیح نہیں ہے۔ اہلِ سیاست کی ترجیح تو تعلیم ویسے بھی نہیں بن سکتی کیونکہ اگر عام آدمی تعلیم حاصل کر کے باشعور بن جائے تو پھر سیاسی قیادت کے احتساب کے لیے راستہ ہموار ہو جائے گا اور یہ کوئی بھی سیاست دان نہیں چاہتا کہ اس کا احتساب ہو، ہاں یہ الگ بات ہے کہ اپنے مخالفین کا ہر کوئی کڑے سے کڑا احتساب کرنا اور کرانا چاہتا ہے۔
خیر، اس ملک میں تعلیمی اداروں کا حال جاننا ہو تو تقسیم کے وقت ملک کے حصے میں آنے والی اکیلی جامعہ پنجاب یونیورسٹی کی حالت دیکھ لیجیے۔ ملک کی یہ قدیم ترین اور اہم ترین جامعہ تقریباً ایک سال سے عارضی بنیادوں پر چلائی جارہی ہے۔ ڈاکٹر نیاز احمد اختر بطور رئیس جامعہ سبکدوش ہوئے تو پرو وائس چانسلر ڈاکٹر سلیم مظہر کو وی سی کا اضافی چارج دیدیا گیا۔ وہ ریٹائر ہوئے تو تین مہینے کے لیے ڈاکٹر نیاز کو عارضی وی سی بنا دیا گیا۔ اس میعاد کے ختم ہونے پر جی سی یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی کو تین مہینے کے لیے پنجاب یونیورسٹی کے وی سی کی بھی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ یہ مدت ختم ہوئی تو پھر ڈاکٹر نیاز کو سہ ماہی وی سی شپ مل گئی۔ اب وہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر بن کر چلے گئے ہیں تو امید کی جارہی ہے کہ پھر کسی شخص کو ملک کی سب سے بڑی جامعہ کے رئیس کا اضافی چارج دیدیا جائے گا۔ مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں صرف وائس چانسلر ہی نہیں بلکہ پرو وائس چانسلر، رجسٹرار اور کنٹرولر امتحانات کے عہدے بھی کسی مستقل تعیناتی کی راہ تک رہے ہیں۔
کسی بھی تعلیمی ادارے کا سربراہ اچانک ریٹائر نہیں ہوتا، سب کو پتا ہوتا ہے کہ فلاں شخص فلاں تاریخ کو سبکدوش ہورہا ہے لیکن اس کے باوجود نئے بندے کی بھرتی کا عمل پہلے سربراہ کی ریٹائرمنٹ کے کئی مہینے بعد شروع کیا جاتا ہے۔ اس سے ادارے اور اس کے مختلف شعبوں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوتی ہے مگر کسی کو بھی اس بات کی کوئی پروا نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک یا معاشرے میں مثبت تبدیلیاں اس وقت تک نہیں آسکتیں جب شعبہ¿ تعلیم کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر کھڑا نہ کیا جائے۔ پاکستان کو اس وقت جن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان کا حل صرف اسی صورت میں نکل سکتا ہے جب ہم تعلیم کو اپنی ترجیح بنا کر تعلیمی اداروں کو بہتر بنانے کے قابلِ عمل اور مستقل پالیسیاں اختیار کریں، اور اس سلسلے کا آغاز ابتدائی یعنی پرائمری درجے سے ہونا چاہیے تاکہ ہم بنیاد درست رکھ سکیں۔ تعلیمی اداروں کو بہتر بنائے بغیر ملک اور معاشرے میں کسی مثبت تبدیلی کی خواہش دیوانے کے خواب کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی!

ای پیپر دی نیشن