اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران کی درخواست پر سماعت
کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیا فیٹف نے منی لانڈرنگ کے معاملات دیکھنے کیلئے نیب کو کہا تھا۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا فیٹف نے کچھ ایسا نہیں کہا، عمران خان نے اپنی طرف سے یہ باتیں لکھ دیں۔ چیف جسٹس نے کہا آپ نے درخواست گزار کی خامیوں سمیت غلطیوں کو بھی اجاگر کیا ہے۔ حکومت نے نیب قانون کو وسعت دی جس کو درخواست گزار نے نہیں سراہا ہے۔ حکومت کے وکیل نے موقف اپنایا کہ عدالت متعدد بار نیب قانون میں شفافیت لانے کا کہہ چکی لیکن عمل نہیں ہوا تھا۔ عمران خان نے الزام لگایا کہ حکومت نے نئے نیب قانون میں اختیارات کم کردیے، عمران خان نے خود نیب ترامیم کرکے اطلاق تمام شہریوں پر ختم کردیا تھا۔ عمران خان نے آصف زرداری، حسین لوائی اور انور مجید پر الزامات لگائے لیکن فریق نہیں بنایا، کیا یوں عدالت ایسی درخواست پر کوئی حکم جاری کرسکتی ہے؟۔ عمران خان نے خود نیب ترامیم کرکے اپنی کابینہ کے فیصلوں پر نیب اختیار ختم کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کبھی کبھی جو عدالت میں کہوں اس کا وہ مطلب نہیں ہوتا جو سمجھا جاتا ہے، واضح کہہ چکا کہ کرپشن سے تفریق پیدا ہوتی ہے اور معاشرے میں ناانصافی بڑھتی ہے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا جوڈیشل ایکٹوازم سے اسرائیل یا امریکہ جیسے حالا ت بنتے ہیں، امریکہ میں دو بڑی سیاسی جماعتیں عدالتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے لڑ رہی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا تجویز عدالتی تحمل کی دی جاتی ہے لیکن پھر حلف کی پاسداری بھی کرنا ہوتی ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا موجودہ حکومت نے پی ٹی آئی کی تجویز کردہ ترامیم میں کچھ اضافہ کیا۔ تحریک انصاف نے 2019 میں خود ایمنسٹی سکیم متعارف کرائی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا میرے خیال میں 2019ء کی ایمنسٹی سکیم کامیاب رہی جس سے کافی لوگ مستفید ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا عوام سے فراڈ کو بھی نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا؟۔ جس پر مخدوم علی خان نے کہا عمران خان نے خود 2019 میں عوام سے فراڈ کو نکالا بعد میں شامل کیا۔ موجودہ حکومت نے بھی فراڈ کیسز کو نیب اختیار سے نکالا بعد میں غلطی کا احساس ہونے پر واپس شامل کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا جعلی اکائونٹس کی تحقیقات کرنا کس کا اختیار ہے۔ وکیل نے کہا جعلی اکائونٹس کی نوعیت کو دیکھ کر نیب بھی تحقیقات کر سکتا ہے۔
نیب ترامیم کیس