جمعرات، 23 شعبان المعظم، 1444ھ، 16 مارچ 2023ئ


پاک افغان 3 روزہ ٹی ٹونٹی سیریز شارجہ میں ہو گی 
جب اپنے ملک میں ہم کھیلوں کے ملکی و عالمی اہم ایونٹس عمدہ طریقے سے منعقد کرا رہے ہیں تو پھر یہ مقابلے شارجہ میں کیوں کرائے جا رہے ہیں۔ اس کا جواب شاید پی سی بی کے دانشور ہی دے سکیں گے۔ ہو سکتا ہے شارجہ میں آمدنی زیادہ ہونے کی امید پر ہمارے محکمہ کھیل والے اس کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے سارے محکمے بنیئے کے بیٹے ہیں کچھ دیکھ کر ہی گرتے ہیں۔ اگر افغانستان والوں کو پاکستان آ کر کھیلنے میں تامل ہے تو وہ بھی بتایا جائے کہ کیوں اور کیا ہے۔ اگر کھیل میں ہمارا پلہ بھاری ہے تو ہنگامہ آرائی کرنے میں بدزبانی اور مار پیٹ میں ان کا پلہ بھاری ہے۔ جبھی تو عرب کے کھیل کے میدانوں میں وہاں کی انتظامیہ نے پاکستان اور افغانستان کرکٹ میچوں میں دونوں ممالک کے شائقین کے لیے علیحدہ علیحدہ انکلوژر مختص کر دئیے ہیں کہ کہیں کھیل کے ساتھ ساتھ ان کے دماغ بھی گیند کی طرح اور ہاتھ پاﺅں بیٹ (بلے) کی طرح نہ چلنے لگ جائیں۔ یہ مقابلے 24 سے 27 مارچ تک جاری رہیں گے۔ ان سہ روزہ میچوں میں پاکستانی ٹیم کے نئے کھلاڑیوں کو کھیلنے کا موقع دیا جائے گا جبکہ سینئر کھلاڑی آرام کریں گے۔ شاداب خان پاکستان ٹیم کی قیادت کریں گے۔ خدا کرے دونوں ممالک کے درمیان یہ مقابلے پرامن رہیں اور شائقین کھیل سے لطف اندوز ہوں۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ اسے خوش دلی سے قبول کیا جاتا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
عالمی یوم صارفین خاموشی سے گزر گیا 
یہ دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو جو خریداری کے لیے روزانہ نکلتے ہیں ان کے حقوق سے آگاہ کیا جائے اور منافع خور مافیاز کے ہاتھوں انہیں لٹنے سے بچایا جائے۔ دنیا بھر میں حکومتیں اور ادارے اس سلسلے میں عوام کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مارکیٹوں اور بازاروں میں قیمتوں کے اتار چڑھاﺅ پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ ذرا سا کسی نے ناجائز طور پر منافع بڑھایا ، ذخیرہ اندوزی کی یا مارکیٹ میں کسی چیز کی قلت پیدا کی، حکومتی ادارے عوام یعنی صارفین کو فوری طور پر اس چیز کی دستیابی اور چور بازاری سے آگاہ کرتے ہیں۔ یوں صارفین یا تو اس مہنگی چیز کی خریداری بند کر دیتے ہیں اور اس کے متبادل اشیاءخریدتے ہیں۔ یوں بھی دنیا بھر میں غیر معیاری، ناقص اور زائد المیعاد اشیاءکی فروخت کے خلاف صارفین عدالتوں کا رخ کرتے ہیں جو ایسے معاملات کی سماعت کرتی ہیں اور صارفین کی دادرسی کی جاتی ہے۔مگر ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ کروڑوں صارفین ہر روز کسی نہ کسی طریقے سے تاجروں، دکانداروں کے ہاتھوں لٹتے ہیں۔ اگر پاکستانی صارفین بھی یورپی صارفین کی طرح متحد ہو کر مہنگی، دو نمبر اور ناقص اشیاءکا سختی سے بائیکاٹ کریں تو کچھ ہی عرصہ میں ناجائز طریقے سے منافع کمانے والوں کے ہوش ٹھکانے آ سکتے ہیں۔ یوں آئے روز قیمتوں میں اضافے کا رحجان بھی ختم ہو جائے گا۔ بس ذرا دل کو قابو میں رکھنا ہو گا اور خریداری کرتے ہوئے ہاتھ کو کنٹرول کرنا پڑے گا۔ حکومت خود بھی سختی سے سرکاری نرخنامے پر عمل کرائے۔ دکانداروں ، ریڑھی والوں کو 10 روپے کے عوض یہ نرخ نامہ فروخت کرنے کے ساتھ اس پر بزور طاقت عمل بھی کرائے۔ ورنہ اسی طرح ہر سال 14 مارچ کو یوم صارفین خاموشی سے گزر جائے گا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔ 
٭٭٭٭٭
حمزہ شہباز شریف اور مریم نواز لاہور سے الیکشن لڑیں گے۔ 
مسلم لیگ (نون) والے اب جہاں سے بھی الیکشن لڑیں گے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں قدم قدم پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مراعات یافتہ طبقات کے نمائندے جنہوں نے عوام کو بے یارو مددگار چھوڑے رکھا اب کس منہ سے عوام کا سامنا کریں گے۔ عمران خان نے نوجوان نسل کو اینگری بوائز اور ناراض نوجوانوں کا ایسا مکسچر بنا دیا ہے جو کڑوا تو ضرور ہے مگر یس سر یس سر کہنے والی زبانوں سے اب جو جواب مل رہا ہے وہ بہت تلخ ہے۔ کاش ان پ±رجوش نوجوانوں کو کوئی ایسا رہنما بھی مل جائے جو ان کی توانائی کو مثبت راہوں کی طرف لے جائے۔ سماج میں تبدیلی کی راہ کھلے اور روایتی بت منہ کے بل گرائے جائیں۔ کوئی ایسا انقلابی آئے جو پرانی سیاست گری کے خوار نظام کو تہہ بالا کر دے۔ یہ کام بہرحال نواز ہو یا مریم ، شہباز ہو یا حمزہ، زرداری ہو یا بلاول، عمران ہو یا شاہ محمود قریشی ان کے بس کا نہیں۔ بات کہاں سے کہاں جا نکلی۔ اب حمزہ بھی وطن واپس آ گئے اور وہ مریم کے ساتھ مل کر انتخابی مہم چلائیں گے۔ لاہور سے دونوں کے الیکشن لڑنے کا پلان ہے۔ ووٹروں کو اب یہ کس طرح اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ سنجیدہ اور شائستہ لوگوں کو کس طرح گھروں سے باہر نکالتے ہیں یہ ایک بہت بڑا امتحان ہو گا۔ عمران خان کی جارحانہ سیاست کا مقابلہ کرنا پڑے گا جو اس وقت سیاسی میدان میں خوب چوکے چھکے لگا رہے ہیں اور کوئی اس کی وکٹ اڑانے یا گیند روکنے کی کوشش میں کامیاب نظر نہیں آتا۔ مریم اور حمزہ کو بھی ایسا بیانیہ اختیار کرنا پڑے گا جو نوجوانوں کو ان کی طرف متوجہ کر سکے۔ اس وقت جو نئی نسل ہمارے سامنے ہے یہ بہت تیز ہے۔ فوری ایکشن چاہتی ہے وعدوں پر ان کو ٹرخانا اب زیادہ آسان نہیں رہا۔ اس لیے سیاسی میدان میں کچھ کر کے دکھانا ہو گا۔ یہی مریم اور حمزہ کا اصل امتحان ہے۔
٭٭٭٭٭
مظاہرین کے ہاتھوں مال روڈ پر آرائشی لائٹس کی شامت
ایک وقت تھا جب سیاسی ہنگامہ آرائی ہوتی تو سب سے زیادہ شامت سڑکوں پر لگی سٹریٹ لائٹس اور ٹریفک سگنلز کی آتی۔ مظاہرین نہایت بے دردی سے انہیں توڑ پھوڑ اور مروڑ کر رکھ دیتے جو لوگ پرانے اخباری قاری ہیں جانتے ہیں کہ کئی دن تک ان ٹوٹی سٹریٹ لائٹس اور ٹریفک سگنلز کی تصاویر اور خبریں لگتیں اور حکومت سے انہیں درست کرنے کے مطالبے ہوتے۔ پھر وقت بدلا، بڑے بڑے جہازی سائن بورڈز اور اشتہارات سے سڑکیں سج گئیں تو ان کی شامت بھی آنے لگی۔ اس کے علاوہ پولیس کی گاڑیوں کو بھی مظاہرین بطور خاص نشانہ بناتے اور ٹریفک پولیس کے کیبن اور شیڈز بھی نذر آتش کر دئیے جاتے تھے۔ مال روڈ ، جیل روڈ اور کینال روڈ اس وقت جشن بہاراں کی وجہ سے نئی نویلی البیلی دولہنوں کی طرح سجی ہیں ثقافتی فلوٹ ، آرائشی لائٹیں، محرابیں خوشنما گلدستے اور دیگر سجاوٹی اشیاءکی وجہ سے ان کی خوبصورتی دیکھنے والی ہے، ہر سال کی طرح ہزاروں لوگ روزانہ شام کو یہ چراغاں دیکھنے ان سڑکوں کی سیر کرتے ہیں۔ اب گزشتہ دو روز سے جاری سیاسی دھینگامشتی میں سب سے زیادہ شامت بھی انہی سڑکوں پر لگی آرئشی اشیاءکی آئی ہے۔ مشتعل مظاہرین نے ان سڑکوں کی گویا مانگ ہی اجاڑ دی ہے۔ آرائشی سامان توڑ پھوڑ دیا ہے۔ اگرچہ ہنگامہ آرائی میں یہ سب چلتا ہے۔ مگر اپیل کرنے میں کیا ہرج ہے کہ ہمارے مظاہرین بھائی کم از کم اپنے شہر کی خوبصورتی برباد نہ کریں۔ مظاہرین کو پتھراﺅ یا ڈنڈے استعمال کرنے سے تو نہیں روک سکتے مگر اعتدال کا درس تو دیا جا سکتا ہے جو اس موقع پر عبث جی کا زیاں ہی ہوتا ہے۔ ہم ویسے ہی خوش گماں لوگ ہیں اس تخریب سے بھی کسی نئی تعمیر کا مژدہ سنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ سو یہ بھی کر کے دیکھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...