اسلام آباد؍ لاہور (وقائع نگار+ خبر نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے وارنٹ گرفتاری منسوخی کی درخواست نمٹاتے ہوئے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے اور بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیدیا۔ گذشتہ روز تلاوت قرآن کریم کے بعد عدالت شروع ہونے پر ایک ارجنٹ کیس کی سماعت کے ختم ہوتے ہی عمران خان کے وکیل خواجہ حارث، علی گوہر، علی بخاری، بابر اعوان اور دیگر روسٹرم پر آگئے۔ اس موقع پر شبلی فراز، سیمی ایزدی، عامر کیانی، شہزاد وسیم، صداقت عباسی اور دیگر بھی کمرہ عدالت موجود تھے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس عدالت نے آپ کو رعایت دی تھی، ابھی تو آپ کی درخواست فکس نہیں ہوئی، فکس ہوگی تو سماعت کروں گا۔ اس موقع پرخواجہ حارث نے آج ہی درخواست پر سماعت کرنے کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اس عدالت نے درخواست سنی تھی اور ڈائریکشن دی تھی مگر افسوس کہ کیا ہوا۔ خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ آپ ہمیں سن لیں ہم قانون کے تحت عدالت کو مطمئن کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس عدالت نے پہلے ریلیف دیا تھا مگر اس عدالتی احکامات کا کیا بنا، عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں ہوا اس کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں دیکھیں گے۔ بعد ازاں درخواست اعتراضات کے ساتھ مقرر کردی گئی، جس پر باقاعدہ سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکلاء اور دیگر عدالت پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بائیو میٹرک پہلے ہی ہو چکی اور دستخط مختلف ہونے والا اعتراض بھی ہے یہ دونوں ختم کر دیتے ہیں۔ عدالت نے وکلاء کو تین روز میں رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ چھوٹے چھوٹے اعتراض ہیں ٹکٹ وغیرہ لگنے ہیں وہ تو آدھے گھنٹے میں دور کیے جاسکتے ہیں، ابھی دور کرکے دوبارہ فائل کردیں اور دوبارہ سماعت کیلئے مقرر کروا دیں، ہم سماعت کرلیں گے۔ بعدازاں وکلاء کی جانب سے درخواست پر اعتراضات ختم کردیے گئے اور درخواست دوبارہ سماعت کیلئے مقرر کردی گئی، جس پر چیف جسٹس عامرفاروق کی عدالت میں دوبارہ سماعت کے دوران عمران خان کے وکلاء خواجہ حارث، علی بخاری، فیصل چوہدری اور دیگر جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منوراقبال دوگل، اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عظمت بشیر تارڑ، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون اور دیگر عدالت پیش ہوئے، خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ تیرہ مارچ کے آرڈر کو چیلنج کیا ہے،اس سے پہلے عدالت نے ٹرائل کورٹ سے وارنٹ کے اجرا کو معطل کیا تھا، عدالت نے عمران خان کو تیرہ مارچ کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کی ہدائت کی تھی،تیرہ مارچ کو پٹیشنر عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو سکے،چیف جسٹس نے کہاکہ اور وہ اس دن کہاں تھے؟، جس پر خواجہ حارث نے کہاکہ عمران خان اس روز گھر پر تھے،ٹرائل کورٹ کو بتایا ہے کہ کمپلینٹ ہی قابل سماعت نہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ وارنٹ دوبارہ جاری ہونے کا ایشو نہیں،عدالت نے کہا تھا تیرہ مارچ کو پیش ہوں ورنہ وارنٹ بحال ہو جائے گا،خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ یہ کمپلینٹ غلط طریقے سے دائر کی گئی، متعلقہ افسر شکائت دائر کرنے کا مجاز نہ تھا،قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کمپلینٹ دائر کر سکتا ہے، الیکشن کمشنر یا کسی افسر کو کمپلینٹ دائر کرنے کی اتھارٹی دی جا سکتی ہے،جب کمپلینٹ دائر کرنے میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے،اس صورت میں وارنٹ جاری کرنے کی کارروائی بھی درست نہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی بھی کریمنل کیس میں سمن جاری ہو تو کیا عدالت پیش ہونا ضروری نہیں؟، خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ لاہور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت افسوسناک ہے،میں نے اپنے موکل سے بات کی ہے، عمران خان نے انڈرٹیکنگ دی ہے کہ آئندہ سماعت پر پیش ہو جائیں گے،وارنٹ کا اجرا بھی صرف عدالت میں حاضری کے لیے ہے،چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ۔اٹارنی جنرل آفس سے کوئی آیا ہوا ہے؟،جس پرایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد روسٹرم پر آ گئے،۔جبکہ خواجہ حارث نے وٹس ایپ پر موصول ہونے والی انڈرٹیکنگ عدالت میں دکھا دی،چیف جسٹس نے کہاکہ عدالتوں کی عزت اور وقار بہت اہم ہے،ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ قانون سب کے لیے برابر نہ ہو،ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ قانون سب کے لیے یکساں ہو،اگر ایک آرڈر ہو گیا تو وہ کالعدم ہونے تک موجود رہتا ہے، عمل ہونا چاہیے،لاہور میں جو کچھ ہو رہا ہے ہم کیا چہرہ دکھا رہے ہیں؟، ہم تو سنتے تھے کہ قبائلی علاقوں میں ایسا ہوتا ہے،ہم دنیا و کیا بتا رہے ہیں کہ قانون پر عمل نہیں کریں گے؟، مجسٹریٹ کی عدالت ہو یا سپریم کورٹ، فیصلوں پر عمل ہونا چاہیے،ہمارے آرڈرز دستخط کے ساتھ جاری ہوتے،ہمارے پاس ‘‘مسلز مین’’ نہیں جو جا کر طاقت دکھائیں،ریمانڈ کا آرڈر ہمیشہ سیشن کورٹ میں جاتا ہے،اس لیے کہ ذمہ دار وہ مجسٹریٹ ہوتا ہے،اس کیس میں تو ریمانڈ بھی نہیں ہونا، صرف گرفتار کر کے پیش کرنا ہے، خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ مگر چار دن پہلے گرفتار کر کے کہاں رکھیں گے؟، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے کہاکہ اگر اٹھارہ مارچ کو بھی عمران خان نہیں آئے تو خواجہ صاحب پر تو چارج فریم نہیں ہو گا،اگر اٹھارہ تاریخ کو ان کے موکل نہ آئے تو یہ وکالت چھوڑ دیں گے،انہوں نے پہلی مرتبہ کسی کے بارے میں ایسی انڈر ٹیکنگ دی ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ ریلیف پٹیشنر کو ملنا ہے اور اس کا کنڈکٹ عدالت کے سامنے ہے،اس سے پہلے بھی اسی طرح کی ایک انڈرٹیکنگ دی گئی تھی،اس وقت بھی ہائی کورٹ آ کر وارنٹ معطل کرائے مگر پھر پیش نہ ہوئے،پہلے عدالتی حکم پر عملدرآمد ضروری ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ لاہور میں جو ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہو رہا ہے؟،جس پر خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ جو ہو رہا ہے وہ غلط ہو رہا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ ایک سیاسی جماعت کے کارکن پولیس پر حملے کر رہے ہیں،یہ ریاست پر حملہ ہے،پولیس والے وہاں ریاست کی طرف سے ڈیوٹی کر رہے ہیں،حملہ کرنے والے بھی ہمارے ہی بچے ہیں،خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ پولیس والے جو وہاں آئے ہوئے ہیں وہ بھی متاثرین میں ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ کیا یو کے میں کوئی پولیس والے کی وردی کو ہاتھ لگا سکتا ہے؟، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ اگر گزشتہ انڈرٹیکنگ پر عمل ہو جاتا تو آج یہ سب کچھ نہ ہوتا،خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ مجھے جو بتایا گیا وہ یہ کہ میرے موکل کا پہلی بار بیان حلفی ہے جو میں جمع کر رہا ہوں،دوران سماعت ایڈوکیٹ جنرل نے عمران خان کو کل پیش کرنے کی استدعاکی، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ میں نے اپنی عدالت کی dignity بھی دیکھنا ہے اور باقی چیزیں بھی دیکھنے ہیں، لاہور میں جو بھی ہورہا ہے دونوں سائڈ پر ہمارے بچے ہیں، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہاکہ عمران خان ایک قومی لیڈر ہے وہ کیوں عدالت پیش ہونے سے ڈرتے ہیں،عمران خان برطانیہ میں رہے ہیں انکو قانون پر عمل درآمد کرنا چاہیے،چیف جسٹس نے کہاکہ ابھی کے اور ماضی کے تمام سیاستدانوں نے سوسائٹی بلڈنگ پر کچھ نہیں کیا، وکلائ کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے عمران خان کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا،اور بعد ازاں فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے عمران خان کے وارنٹ منسوخی درخواست نمٹاتے ہوئے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری بحال رکھے اور کہاکہ عمران خان کا بیان حلفی ٹرائل کورٹ میں جمع کرایاجائے، عمران خان اپنی درخواست ٹرائل کورٹ میں دائر کریں اور ٹرائل کورٹ قانون کے مطابق بیان حلفی کو دیکھے۔لاہور سے خبرنگار کے مطابق توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی زمان پارک سے گر فتاری کا معاملہ ،لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے فواد چوہدری کی درخواست پر دو روز سے جاری پولیس آپریشن آج صبح 10 بجے تک روکنے کا حکم دے دیا،جس کے بعد نگران حکومت پنجاب کے حکم پر زمان پارک میںجاری کارروائی کو روک دیا گیا، عدالت نے ہدایت کی کہ پولیس مال روڈ اور دھرم پورہ تک رہے ، عدالت نے ریمارکس دئیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں وارنٹ کیخلاف درخواست دائر ہے جب تک فیصلہ نہیں آ جاتا ہم آپریشن روک دیتے ہیں، میں لاہور میں امن چاہتا ہوں، عدالت نے عمران خان کے وکیل کو کہا کہ یہ کوئی ٹاک شو نہیں آپ نے قانون کے مطابق بات کرنا ہے،دوران سماعت چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ لوگوں کا بہت نقصان ہوا ہے،ایڈوکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے کہا جو زمان پارک کے باہر ہو رہا ہے، وہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، فلموں جیسا وار زون بن چکا ہے، اکیس گھنٹے سے زمان پارک کے باہر پولیس لگی ہے،معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، یہ درخواست لاہور ہائیکورٹ میں قابل سماعت نہیں ہے،عدالت نے ریمارکس دیئے کہ میرے سامنے چار درخواستیں ہیں، اسلام آباد سے کون پولیس افسر لاہور آیا ہے، وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ چیک کرنا پڑے گا، عدالت نے کہا کہ جو بھی اسلام آباد پولیس کی طرف سے آپریشن ہیڈ کر رہا ہے ہم اسے بلا لیتے ہیں، وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کی نمائندگی ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کرتے ہیں،عدالت نے کہا کہ اس معاملے کو کسی طرح ٹھیک بھی تو کرنا ہے، اگر اسلام آباد پولیس کے افسر عدالت میں پیش نہ ہوئے تو ہم ان کے وارنٹ جاری کریں گے ، وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ اسلام آباد پولیس لاہور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی، اسلام آباد کے پولیس افسر سے رابطہ نہیں ہو سکا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے، وکیل عمران خان نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں وارنٹ گرفتاری کا معاملہ چیلنج ہوا ہے، عدالت نے آئی جی سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں مسئلے کا حل کیا ہے، آئی جی نے کہا کہ ڈنڈوں سوٹوں سے پولیس پر حملہ کیا گیا 59 مزید اہلکار زخمی ہوئے،آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا تھا کہ کوئی اہلکار یا افسر اسلحہ لیکر نہیں جائے گا، ہم نے واٹر کینن اور آنسو گیس سے حالات پر قابو پایا، دوسری طرف سے پٹرول بم آنا شروع ہوئے جس سے ہماری دو گاڑیاں تباہ ہوئیں، ایلیٹ کی گاڑی پر حملہ کیا گیا۔ پی ایس ایل کی ٹیمیں یہاں ٹھہری ہوئی ہیں، اس کے بعد رینجر کو طلب کیا گیا اس پر بھی حملہ کیا گیا، اسلام آباد پولیس افسران پر بھی حملہ ہوا، آئی جی پنجاب نے کہا کہ ایس پی عمارہ شیرازی پر تشدد کیا گیا، ہم نے صرف پولیس پر حملہ کرنے والوں کو پکڑا ہے، ہم نے کوئی آپریشن نہیں کیا، ہم تو عدالت کے حکم پر عملدرآمد کرا رہے ہیں، سرکار کی جو املاک نظر آتی ہے اسے آگ لگائی جا رہی ہے، اب وکلا نے ریلی نکالی اور پھر تصادم ہو گیا، ہم نے پولیس پر تشدد کرنے والے اور کار سرکار میں مداخلت کرنے والے افرادکو پکڑنا ہے، اس سارے معاملے میں فائرنگ کا خدشہ تھا، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم وہ پارٹی ہیں جو قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، میں ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد کے پاس گیا تاکہ وارنٹ دیکھ کے کوئی حل نکال سکوں، انہوں نے پیچھے سے آنسو گیس کا استعمال شروع کر دیا، پولیس نے سیز فائر کا وعدہ کیا لیکن پولیس نے عمران خان کے گھر کے اندر شیلنگ کی، میرے خیال سے پولیس کوئی سانحہ چاہتی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد کو فون پر اطلاع کردی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ عدالت کے روبرو آئی جی پنجاب نے کہا کہ جی ہم سے اسلام آباد پولیس نے نفری مانگی تو ہم نے دی، زمان پارک میں ہمارے 59 پولیس اہلکار زخمی ہوئے، پولیس پر پتھرائو اور ڈنڈے چلائے گئے ،ہماری قیمتی گاڑیاں جلائی گئیں، ہم نے عدالت کے حکم پر یہ آپریشن قانون کے مطابق کیا ،کھمبے گرین بیلٹس توڑی اور خراب کردی گئیں،وکلاء بھی ریلی لے کر وہاں آگئے ،پولیس تشدد میں ملوث کارکنوں کو گرفتار کرینگے ،ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ،عدالت حکم واپس لے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ،عدالت نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے تک آپ یہ کارروائی روک دیں ،پی ایس ایل ہورہا ہے شہر میں امن ہونا چاہئے، آئی جی پنجاب نے کہا کہ پولیس زمان پارک میں موجود رہے گی، وکیل نے کہا کہ سب کو معلوم ہے کہ زمان پارک میں کیا ہورہا ہے، زمان پارک میں لوگوں پر تشدد اور شیلنگ کی جارہی ہے ،صرف ایک وارنٹ کی تعمیل کیلئے لاہور ڈویژن کی پولیس لگادی گئی ،یہ سب کچھ نگران حکومت بدنیتی کی بنیاد پر کررہی ہے ،اگر وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو قانون اگلا راستہ دیتا ہے۔مزید برآں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری اور عمران خان کی لیگل ٹیم چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی عدالت میں پیش ہو گئی ، فواد چودھری نے عدالت کو آگاہ کیاکہ تحریک انصاف کے ساتھ غلط برتائو برتا جا رہا ہے،عابد ساقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی کارکنوں پر تشدد ہورہا ہے،اس پر چیف جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ اس معاملے پر پٹیشن کے بغیرکیسے سن سکتے ہیں؟ وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ ہم پٹیشن تیار کررہے ہیں،فواد چوہدری نے کہا کہ استدعا ہے کہ آپ سی سی پی او کو طلب کرکے آپریشن کو روکیں، اس پر عدالت نے کہا کہ پٹیشن کے بغیر کیسے آرڈر جاری کر سکتے ہیں؟عدالت نے کہا کہ یہ اسلام آباد کا معاملہ ہے آپ وہاں جائیں، جو سسٹم ہے اسی کے مطابق کیس فکس ہوگا، اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ جی پٹیشن پر عمران خان کے دستخط کرانے میں مشکلات ہیں ،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ میں سے کوئی اور درخواست دائر کردے ، اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا ٹھیک ہے سر فواد چوہدری درخواست دائر کردیتے ہیں۔ علاوہ ازیں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ نے عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتوں میں پیشی اور سکیورٹی کیلئے دائر درخواست پر سماعت 21 مارچ تک ملتوی کردی ،عدالت نے ریمارکس دیئے کہ امن و امان قائم رکھنا اور سکیورٹی فراہم کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے ،اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ زمان پارک میں حالات بہت کشیدہ ہیں ،قیادت سے رابطہ نہیں ہوسکا کیس کی سماعت ملتوی کی جائے۔اس طرح لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے عمران خان کو زمان پارک سے ہائیکورٹ آنے کی اجازت کی درخواست پرنگران حکومت پنجاب اور آئی جی پنجاب سے جواب طلب کرلیا ، درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ عمران خان حفاظتی ضمانت کے لیے لاہور ہائیکورٹ آنا چاہتے ہیں، استدعا ہے کہ عدالت پولیس کو عمران خان کو گرفتار کرنے سے روکنے کا حکم دے۔
ہائیکورٹس فیصلے
لاہور؍ اسلام آباد؍ راولپنڈی (نامہ نگار+ خبر نگار+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نوائے وقت رپورٹ) زمان پارک میں پی ٹی آئی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان دوسرے روز بھی تصادم کا سلسلہ جاری رہا اور علاقہ میدان جنگ بنا رہا۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پٹرول بموں، ڈنڈوں اور پتھراؤ سے پولیس پر دھاوا بول دیا اور مال روڈ ٹریفک سیکٹر کے دفتر کو آگ لگا دی۔ جبکہ پولیس نے کارکنوں پر آنسو گیس کی شدید شیلنگ، واٹر کینن گن کا استعمال ،لاٹھی چارج اور مکوں ٹھڈوں سے تشددکیا۔ تصادم کے نتیجے میں51 پولیس اہلکار اور پی ٹی آئی کے درجنوں کارکن زخمی ہو گئے ۔عمران خان کی گرفتاری کے لیے زمان پارک میںپولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں کے درمیان منگل سے شروع ہونے والے تصادم کا سلسلہ گزشتہ روز بھی جاری رہا۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے عمران خان کی رہائش گاہ کو اپنے حصار میں لے لیا اور پولیس سے شدید مزاحمت کی۔ ڈنڈا بردار کارکنوں نے بھی پولیس پر حملہ اور شدید پتھراؤکیا جبکہ پی ٹی آئی کے کارکنوںنے پولیس پر پٹرول بموں سے بھی حملے کئے۔ انہوں نے دھاوا بول کر مال روڈ ٹریفک سیکٹر کے دفتر کو آگ لگا دی۔ جس سے پورا دفتر اور درجنوں موٹرسائیکلیں جل کر تباہ ہو گئیں، جن میں پٹرولنگ موٹر سائیکلز بھی جلا دی گئیں۔ اس ہنگامہ آرائی میں دیگر املاک کی بھی توڑ پھوڑ کی اور شدید نقصان پہنچایا گیا۔ بہت سی گاڑیاں بھی تباہ ہو گئیں۔ پولیس نے زمان پارک کی طرف جانے والے تمام راستے بدستور لوہے کے بیرئیر، کنٹینر اور رکاوٹیں کھڑی کر کے بند رکھے تھے ۔ ذرائع کے مطابق زخمی ہونے والے ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد شہزاد بخاری کو سروسز ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا ہے جبکہ میو ہسپتال میں تین پولیس اہلکار زیر علاج ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے پولیس اور رینجرز پر پتھراؤ کیا گیا پتھراؤ سے پولیس اہلکاروں سمیت رینجرز اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں حکومتی ذرائع کے مطابق پی ایس ایل کا میچ ختم ہونے تک پولیس پیش قدمی نہیں کرے گی تاہم زمان پارک کے گرد محاصرہ جاری رکھا جائے گا حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم پر مکمل عملدرآمد کرایا جائے گا ہسپتال ذرائع کے مطابق پولیس اور کارکنوں کے درمیان جھڑپوں میں اب تک 64 افراد زخمی ہوئے ہیں زخمیوں میں 59 پولیس اہلکار اور 8 شہری شامل ہیں۔ دریں اثناء تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پولیس اور کارکنان میں جاری جھڑپوں کے دوان گیس ماسک پہن کر کارکنان سے ملنے کیلئے گھر سے باہر آ گئے اس دوران انہوں نے آنسو گیس کی شیلنگ سے بچنے کیلئے چہرے پر ماسک پہن رکھا تھا پی ٹی آئی چیئرمین نے اپنے گھر کے احاطے میں کارکنان سے ملاقات کی اور ان سے بات چیت کرتے نظرآئے۔ خبرنگار کے مطابق پی ٹی آئی کارکنوں پر پولیس ک کے لاٹھی چارج شیلنگ پر معاملہ ،لاہور ہائیکورٹ کے جی پی او چوک میں وکلاء کی بڑی تعداد نے احتجاج کیا، وکلاء نے لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی کے نعرے بازی کی جبکہ ڈی ایس پی کی گاڑی سمیت پولیس کی گاڑیوں پر حملہ کر دیا جس پر ڈرائیور پولیس کی گاڑیاں واپس ون وے ہی لے کر نکل گئے۔اسلام آباد سے آئی این پی کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ممکنہ گرفتاری اور پولیس اہلکاروں کے خلاف احتجاج پر عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے دیگر رہنماوں کے خلاف 2 مقدمات درج کرلیے گئے۔ پی ٹی آئی رہنما وں، کارکنوں پر عمران خان کی ممکنہ گرفتاری پر احتجاج اور پولیس اہلکاروں پر حملے کیخلاف مقدمہ تھانہ کھنہ اسلام آباد میں درج کرلیا گیا۔ مقدمہ ایس ایچ او کھنہ اور سب انسپکٹر کی مدعیت میں درج کیا گیا، مقدمہ میں انسداد دہشتگردی، کار سرکار میں مداخلت ،راستہ روکنے، پولیس اہلکاروں پر حملہ آور ہونے سمیت دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔ مقدمہ میں عمران خان ، شاہ محمود قریشی سمیت مقامی قیادت اور نامعلوم ملزم شامل کیے گئے ہیں ۔ ایک مقدمے میں 19 برائے نام اور 50 سے 60 نامعلوم کارکنان شامل دوسرے مقدمے میں 8 برائے نام اور 70 سے 80 نامعلوم کارکنان شامل ہیں ۔ دوسری جانب عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے خلاف کراچی میں احتجاج کے معاملے پر پی ٹی آئی رہنماں کیخلاف ایک اور مقدمہ کراچی تھانہ پیرآباد میں ایم پی اے سعیدآفریدی و کارکنوں کیخلاف درج کیا گیا ہے ۔ مقد مے میں ہنگامہ آرائی اورجلاو گھیراو کی دفعات شامل ہیں۔ دریں اثناء پولیس نے زمان پارک کے عقب میں واقع ٹھنڈی سڑک سے پاکستان تحریک انصاف کے دس کارکنوں کو گرفتار کر لیا اور کارکنوں کے قبضہ سے بھاری تعداد میں پٹرول بم ،کیل لگے درجنوں ڈنڈے اور ایک سفید رنگ کی ڈالہ گاڑی کو قبضہ میں لے لیا ہے۔ گرفتار کارکنان پٹرول بموں اور ڈنڈوں سے مسلح ہو کر کسی دوسرے ضلع سے لاہور پہنچے تھے۔ پولیس نے ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کردی ہے۔راولپنڈی سے اپنے سٹاف رپورٹر کے مطابق راولپنڈی پولیس نے سربراہ پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کیلئے ریڈ کے خلاف شہر میں رات کے اوقات میں احتجاج کرنے پر تحریک انصاف کے پانچ سابق اراکین اسمبلی اور مقامی عہدیداروں کے خلاف دو مقدمات درج کر لئے۔ 51افراد کو گرفتار کرلیا گیا جنہیں تین ایم پی او کے تحت 15یوم کے لئے اڈیالہ جیل بھجوا دیا گیا جبکہ تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سے ممکنہ احتجاج کے پیش نظر راولپنڈی میںسکیورٹی سخت کر دی گئی۔
زمان پارک جھڑپیں