یہ نام مجھے میری بغاوت نے دیا ہے

Mar 16, 2023

فرزند علی سرور ہاشمی


زادِ راہ… فرزند علی ہاشمی
farzandalihashmi@gmail.com
اردو، بالخصوص پوٹھوہاری کے فعال شاعر و ادیب کا سراپا میرے سامنے جھلملا رہا ہے، جس کے ہاں محبت سی محبت اور جنوں سا جنوں ہے۔ نیز، زبان و ادب اور ثقافت کا ایسا ہوک ہے، جو اس کے متعلقین کو بھی اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ پوٹھوہاری زبان میں سوچتا ، اسی میں خواب بْنتا اور پھر تعبیر کرتا چلا جاتا ہے، اس لیے کہ شنید ہے خواب اپنی تعبیر پر ہی واقع ہوتے ہیں۔ ہاں! یہ سراپا اخلاص و جنوں ہردلعزیز شکور احسن ہے، جس نے زندگانی پوٹھوہاری زبان و ادب کے نام کر دی ہے۔ وہی شکور احسن، جس نے اپنی حیات کا انتساب پوٹھوہار کے نام کیا ہے۔ اس نے تلخی حیات کو شکست دی اور ادبی ذوق کی صورت میں زادِ راہ لیے پیہم سفرکناں ہے۔ اسی ریاضت کے ثمر میں اب تک اس کی کم و بیش دس تصانیف و تالیفات منصہ شہود پر آ چکی ہیں اور متعدد رْو بہ سفر ہیں۔ اس لیے کہ اصل تخلیق کہیں راستے میں ہوتی ہے، جس نے معیّن وقت پر ظہور کرنا ہوتا ہے۔ اوّلین مرحلہ رشحاتِ قلم کا صفحہ قرطاس پر آنا ہے، ازاں بعد نقد و نظر کے ذریعے معیار طے ہوتا ہے۔ اس لیے تخلیق کا عمل بہرصورت جاری و ساری رہنا چاہیے۔ اسی نظریے کے تحت شکور احسن ’’ادبی مبلغ‘‘ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ وہ واقعتاََ جوہر شناس ہے۔ ایک نظر میں بھانپ لیتا ہے کہ کس سینے میں کس سطح کا کہانی کار، نظم یا غزل گو موجود ہے۔ وہ بلاتاخیر ادراک کر لیتا اور اسے اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ دستیابی مواد کی صورت میں محققین کی معاونت جی جان سے کرتا ہے۔ کون ہے جو اس کے اخلاص اور جنوں کے سامنے اَٹا رہے۔ سامع سرنگوں ہو کر شکور احسن کی انگلی تھامے ادبی قافلے کا حصہ بن جاتا ہے اور یہ ’معرکہ‘ سر کرنے پر شکور احسن نہال ہو جاتا ہے۔ اس کی طمانیت دیدنی ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں اس نے پوٹھوہار بھر میں بیسیوں ادبی تنظیمات کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اپنی تنظیم ’’بزمِ سخن‘‘ کے تحت پچاس ماہانہ تنقیدی اجلاس کا انعقاد اس کے ادبی رجحانات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ نتیجتاََ، آج ان تنظیموں کے تحت تخلیق کار بھرپور فعال ہیں۔ تخلیق کا عمل رواں دواں ہے۔ مشاعرے، ادبی مباحث اور مکالمے کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ مختلف اصناف پر مبنی تصانیف اشاعت آشنا ہو رہی ہیں۔ قلم کاروں نے اپنا رخ پوٹھوہاری زبان و ادب اور ثقافت کی طرف کر لیا ہے۔ مادری زبان کو پَھلتا پْھولتا دیکھ کر شکور احسن جھوم رہا ہے۔ اس لیے کہ اپنی مٹی اور بوباس سے گہرا تعلق خون بن کر اس کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ وہ نیرنگِ خیال، بیاض، ادبیات، نقاط، صریر، صد رنگ اور وائس آف رائٹرز کے علاوہ صدائے پوٹھوہار و دیگر اخبارات و رسائل میں تواتر کے ساتھ چھپتا رہا۔ اس کے شب و روز تخلیق و تحقیق کے نام ہیں۔ اس باب میں، ’’گوجر خان میں فنون و ادب کی مختصر تاریخ‘‘ اور ’’کہانی ایک گا?ں کی‘‘ نامی تالیفات اس کے تحقیقی رجحانات کی غماز ہیں۔ ’’لہو میں ناچتی وحشتیں‘‘(اردو افسانے)، ’’چہھکھڑ سبھے منظر ٹہھکے‘‘(پوٹھوہاری غزلیات اور نظمیں)، ’’پینگاں‘‘(پوٹھوہاری ماہیے)، ’’بمبل‘‘(پوٹھوہاری غزلیات)، ’’تحفہ‘‘ اور ’’بابا چراغوں والا‘‘ (بچوں کی کہانیاں)، ’’کوسے کوسے ساہ‘‘ (پوٹھوہاری کے معروف شعرا کی غزلیات کا انتخاب) اور ’’آنکھیں پڑھ لیں‘‘(اردو شاعری) شکور احسن کے ادبی جنون کا بین ثبوت ہیں۔ علاوہ ازیں گوجر خان میں اردو اور پوٹھوہاری افسانے کی روایت کے موضوع پر حال ہی میں ’’مضراب‘‘ اور ’’پوٹھوہاری‘‘ کے نام سے خاص شماروں کا اجرا بھی کیا ، جوکہ دبستانِ پوٹھوہار، اسلام آباد کے زیرِ تحت شائع ہوئے ہیں۔ شکور احسن محبت کی روایت سے وابستہ ہے۔ وہ حقیقی طور پر محبت اور ادب کا وارث ہے۔ اسی لیے اس اعتراف کے ساتھ، اس نے سوال بھی اٹھایا ہے:
میں عہدِ گزشتہ کی روایت کا امیں ہوں
کیوں بات مری سب سے جدا تجھ کو لگتی ہے
شکور احسن نے دنیا کی بے حسی و بے ثباتی کو گہرائی و گیرائی سے دیکھا ہے۔ چاروں اور آہ و فغاں ہے، افلاس ہے۔ ارمانوں کا خوں ہے۔ نعشیں ہیں۔ اضطراب در اضطراب ہے۔ گویا درد مجسم ہو کر رہ گیا ہے۔ قلاشی کو وجود عطا ہو گیا ہے۔ باوجودیکہ ہر کوئی اپنے آپ میں مگن ہے اور ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ احساس کا دریا سوکھ گیا ہے۔ اس صورتِ حالات کو انھوں نے اس طرح آشکار کیا ہے:

بھوک اْگنے لگی حقیقت میں
بات ہوتی رہی فسانے پر
پڑی ہیں لاشیں مگر کوئی آس پاس نہیں
یہ قہر کیسا ہمارے وطن پہ ٹوٹا ہے
’’اس لیے بھی وضو میں رہتا ہوں، 
 میں تری جستجو میں رہتا ہوں‘‘
 کا اعتراف کرنے والے کا دامنِ دل کس قدر شفاف، معطر اور مطہر ہے۔ اس لیے کہ آرزو اور جستجو کا راہی ہے۔ وہ خواہاں ہے کہ کبھی مرگِ آرزو نہ ہو ، جذبے طیب اور ادبی سفر رواں دواں رہے۔ شکور احسن انھی کیفیات کے ساتھ حقیقت زباں پر لانا چاہتا ہے، لیکن سامنے کربلا سی کربلا ہے، جس کے پیشِ نظر اس نے کہا تھا:
ہم زمانے میں کس کس کی پوجا کریں
جو بھی اچھا لگا، وہ خدا ہو گیا
سچ کہے تو کہے اب کوئی کس  طرح
شہر کا شہر جب کربلا ہو گیا
اس صورتِ حالات کے باوصف، اس میں ہوا کے مخالف رخ میں کھڑے ہونے کا دم خم تب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ وہ اندھی تقلید کا خوگر نہیں۔ وہ نئے راہوں کا راہی ہے اور نت نئے راستوں کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ اس کے ہاں مدعا زباں پہ لانے کا حوصلہ ہے۔ وہ اصولوں پہ کھڑا رہتا ہے۔ اس کے ارادوں میں ہرگز لغزش نہیں آتی۔ وہ سوچتا ہے اور کر گزرتا ہے۔ ایک طرح کا حْریت پسند ہے۔ پنچھی کو آزاد دیکھنا چاہتا ہے۔ اس انحراف ورزی کا اعتراف اس کے اشعار میں دیکھیے:
نفرت نے دیا ہے نہ محبت نے دیا ہے
یہ نام مجھے میری بغاوت نے دیا ہے
اتنا جرم ہوا ہے مجھ سے
پنچھی کو آزاد کیا ہے
شکور احسن بلاشبہ اردو اور پوٹھوہاری کا مخلص ادیب اور درخشندہ ستارہ ہے، جو ادبی کہکشاں پر اپنی سوا شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تاباں و فروزاں ستارہ نوواردانِ ادب کے لیے منزل کا تعین کرنے میں مزید معاون ہو گا۔ میں دست بہ دعا ہوں کہ جنوں کی یہ چنگاری سلگتی رہے اور شکور احسن ایسے قابلِ قدر ادیب قومی و مادری زبانوں کے فروغ میں یونہی ثمربار کرادر ادا کرتے رہیں۔
٭٭٭٭

مزیدخبریں