آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کے تمام مراحل طے پا گئے۔ ہر صوبے میں وزیر اعلیٰ منتخب ہو گیا۔ کابینائیں تشکیل پا گئیں۔ مرکز میں وزرا نے حلف اٹھائے۔ اپنا اپنا قلم دان بھی اپنے نام کر لیا۔پہلے مرحلے میں19وزیر کابینہ میں شامل کئے گئے ہیں۔ پنجاب میں مریم نواز کی کابینہ میں مریم اورنگ زیب سینئر وزیر ہیں۔ مرکز میں سینئر وزیر کی نشاندہی یا نامزدگی نہیں کی گئی۔ ویسے کابینہ تو وزیر اعظم کے بغیر بھی چل جاتی ہے۔ سینئر وزیر مگر چیز ہی کیا ہے۔
1988ءمیں جنرل ضیاءالحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت توڑ دی، جو عبوری حکومت بنائی اس میں وزیر موجود تھے، وزیر اعظم نہیں تھا۔ اسلم خٹک سینئر وزیر بنائے گئے تھے۔ آج مرکز میں کوئی نامزد سینئر وزیر نہیں ہے۔مگر ہر دوسرا وزیر اپنے سیاسی قد کاٹھ، مہارت اور بلندی افکار کے باعث سینئر وزیر مانا اور گردانا جاتا ہے۔وزراکی لسٹ جاری ہوئی تو خواجہ آصف کا نام سر فہرست تھا۔ ان سمیت کئی وزرا پر فارم47کی پھبتی کسی جارہی ہے۔ جس سے اسحق ڈار صاف محفوظ ہیں۔ کیونکہ انہوں نے آٹھ فروری کو الیکشن ہی نہیں لڑا۔وہ اب سینٹر بھی نہیں ہیں مگر وزیر ہیں۔ ویسے ریکارڈ کے لیے وزرا کے نام پر سرسری نظر ڈالتے ہیں: خواجہ آصف اسحاق ڈار،عطا تارڑ، عبدالعلیم خان، احسن اقبال، محسن نقوی(ابھی تک رکن پارلیمنٹ نہیں ہیں)، شیزہ فاطمہ خواجہ، جام کمال خان، رانا تنویر حسین، مصدق ملک(ابھی تک رکن پارلیمنٹ نہیں ہیں)، اعظم نذیر تارڑ، خالد مقبول صدیقی، قیصر شیخ، ریاض پیرزادہ، احد چیمہ(یہ بھی ابھی تک رکن پارلیمنٹ نہیں ہیں)، اویس لغاری، چوہدری سالک اور محمد اورنگزیب رمدے (رکن پارلیمنٹ نہیں ہیں)۔
محمد اورنگ نیدر لینڈمیں مقیم تھے۔ انہوں ایک تودوہری شہریت چھوڑی، دوسرے تین کروڑ روپے تنخواہ اور مراعات چھوڑیں۔ وہ قومی خدمت کا جذبہ لے کر پاکستان چلے آئے۔ ان کو وزارت خزانہ کا قلمدان دیا گیا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت ہو، اسحق ڈار پاکستان میں موجود ہوں، وزیر خزانہ کوئی اور بن جائے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا۔ خیر بہت کچھ بلکہ جو کچھ بھی ہوتا ہے توپہلی بار کے بعد دوسری تیسری بار ہوتا ہے،مفتاح اسمٰعیل شہباز شریف کے14ماہ کے دور کی ابتدا میں وزیر خزانہ تھے ان کو لندن سے آکر اسحق ڈار صاحب نے ریپلیس کیا تھا۔واقفان حال بتاتے ہیں کہ وزارت خزانہ ڈار صاحب کی پہلی محبت اور آخری شوق ہے۔
مفتاح اسمٰعیل اب گویا ہوئے ہیں: دیکھنا ہے کون وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی ٹانگیں کھینچتا ہے۔ گویا مفتاح صاحب پیشگوئی کر رہے ہیں۔ جولاہوں کی اس لڑکی کی پیشگوئی کی طرح جس نے کہا تھا کل ہمارے گھر میں سے ایک فرد کم ہو جائے گا۔ اگلے روز وہ خود گھر سے چلی گئی تھی۔
حکومت سازیاں ہو گئیں۔ الیکشن کمیشن کی مصروفیات بڑھتی جا رہی ہیں ،اپریل فول کے دوسرے دن سینٹ کے الیکشن ہو رہے ہیں۔ 48پرانے سینٹر جائیں گے اتنے ہی اگلے چھ سال کے لیے مزید آجائیں گے۔ ایم این اے ، ایم پی اے پانچ سال اور سینٹرچھ سال کے لیے ہوتا ہے۔ جانے والے صدر کا انتخاب کر گئے۔ کہا جاتاہے صدر کے الیکشن میں الیکٹورل کالج مکمل نہیں تھا۔ خصوصی نشستوں کا قضیہ چل رہا تھا۔ ایک صوبے میں ان خصوصی نشستوں پر سٹے آرڈر دیا گیا تھا جن پر پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا جو دوسری پارٹیوں کو دیدی گئی تھیں، ایک صوبے میں حلف لے لیا گیا مگر صدارتی ووٹ کاسٹ کرنے سے منع کر دیا تھا۔
آصف علی زرداری بھاری اکثریت سے صدر بن گئے۔ ان کو411 جبکہ مد مقابل پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار محمود اچکزئی کو181ووٹ ملے۔ محمود اچکزئی نے خصوصی نشستوں پر فیصلے کا انتظار کرنے کی تجویز دی تھی۔ خصوصی نشستوں کا معاملہ طے ہو گیا۔ پشاور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے تحریک انصاف کا خصوصی نشستوں پر استحقاق تسلیم نہیں کیا۔
آٹھ فروری کو الیکشن کے21روز میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جانا آئینی تقاضہ تھا مگر صدر علوی نے اجلاس بلانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ خصوصی نشستوں کا فیصلہ نہیں کیا گیا لہٰذا ایوان نامکمل ہے۔ صدر علوی نے یہ بات کچے پر پاو¿ں رکھ کر کی تھی۔ اجلاس کے انعقاد سے چند گھنٹے قبل جو سپیکر نے طلب کر لیا تھا، صدر نےسمری پر دستخط کر دیئے۔ اس کے ایک ڈیڑھ ہفتے بعد اپنی آئینی پانچ سالہ مدت سے بھی چھ ماہ مزید انجوائے کر کے وہ ریٹائر ہوئے تو اگلے روز کراچی کے باتھ آئی لینڈ میں صدارتی استحقاق کے مطابق سرکاری رہائش گاہ الاٹ ہوگئی۔ ایک سرکاری گھر سے دوسرے سرکاری گھر میں چلے گئے۔
قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اشارے کنائے ہوتے ہیں۔ یہ8فروری کو چنا یہ نو کو منتخب ہوا۔ یہ فارم 45اور یہ فارم47والا ہے۔ ایسا کہنے والے کچھ شغلاً کہتے ہیں کچھ دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔بہر حال 8فروری کے بعد آج بھی الیکشن کو لے کر خوشیاں بٹ رہی ہیں۔انتخابی نتائج آرہے ہیں۔ شکایت لے کر ٹربیونل میں کوئی جائے تو آم کا درخت لگانے کی طرح اس کا پھل پوتا کھائے۔ اگلے الیکشن آجاتے ہیں ٹربیونل کے فیصلے نہیں آتے۔ وہ خوش قسمت ہیں جن کو پانچ سال میں اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے پہلے انصاف مل جاتا ہے۔ کم سہی مگر ہیں ضرور۔ کئی کے لیے خصوصی نشستیں نعمت غیر مترقبہ کی طرح برس رہی ہیں اور برستی چلی جا رہی ہیں۔ کئی پارٹیوں کی اتنی الیکشن میں حاصل کردہ نشستیں نہیں ہیں جتنی ان کے حصے میں خصوصی نشستیں آگئیں۔
الیکشن کمیشن کایہ حسن کرشمہ ساز ہے۔ تحریک انصاف سے بلے کا نشان واپس لیا۔اس نے بغیر بلے کے نشان اور بغیر پارٹی کے نام سے الیکشن لڑا بعد میں خصوصی نشستیں باقی پارٹیوں میں تقسیم کر دی گئیں۔یہ تقسیم اب تک جاری ہے۔کل ہی نواز لیگ نے ٹک ٹاکرمریم اکرام کو خصوصی نشست پرایم این اے نامزد کیا۔ایک انتخابی نتیجہ ابھی آیا ہے حلقہ 181 کی دوبارہ گنتی میں ہارے ہوئے امیدوار اظہر قیوم ناہرہ کو کامیاب قرار دیا گیا ہے جبکہ ان کے مد مقابل آزاد امیدوار شکست سے دو چار ہوئے۔
ادھر کانسپائریسی تھیوریز کا سلسلہ بھی چل رہا ہے۔دروغ برگردن راوی میاں نواز شریف نے کچھ وزرا کے مرکزی کابینہ میں شامل کئے جانے پر اعتراض کیا تو ان کو ”چیٹے“ لگا فارم 45دکھا دیا گیا۔
قیدی نمبر804 کیساتھ اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں پر پابندی لگائی گئی ہے مگر اتنی سخت بھی نہیں۔وجہ سیکیورٹی ایشوز بتائے گئے۔
پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ پابندی کا مقصد عمران خان کو سینٹ کے انتخاب میں امیدواروں کو فائنل کرنے سے روکنا ہے۔اس پارٹی کا یہ کریڈٹ تو بنتا ہے کہ کسی بھی پارٹی سے زیادہ ووٹ اور نشستیں حاصل کیں۔ ماضی میں اس طرح نکالی گئی پارٹی انتخابات میں تین میں ہوا کرتی تھی نہ تیرہ میں مگر پی ٹی آئی کو پہلی پوزیشن ملی۔کیا سوچ بدل رہی ہے،تبدیلی آرہی ہے۔مزید برآں کیا یہ تبدیلی مثبت ہےجو ہمیں اوج ثریا تک لے جائے گی یا منفی ہے جو پستیوں کی گہرائی میں گرا دے گی۔