پاکستان کی 19 رکنی وفاقی کابینہ نے گزشتہ دنوں حلف اٹھا لیا- وزارت خارجہ کا قلمدان شریف خاندان کے قریبی عزیز اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے سپرد کیا گیا ہے- اس نامزدگی پر تبصرہ نگاروں نے اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے- اسحاق ڈار کو ڈپلومیسی کا کوئی تجربہ نہیں ہے- ان کے پیشرو وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو بھی ڈپلومیسی کا کوئی تجربہ نہیں تھا مگر انہوں نے خدا داد صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے اپنی ذمے داری کو احسن طریقے سے پورا کیا اور پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کو تسلیم کرایا- اسحاق ڈار کو وزیر خارجہ کی حیثیت سے اپنا امیج تشکیل دینا ہے- وفاقی کابینہ کا دوسرا بڑا قلمدان وزیر خزانہ کا ہے جس کے لیے ایک کامیاب ٹیکنو کریٹ حبیب بینک کے سابق صدر محمد اورنگزیب کا انتخاب کیا گیا ہے- جن کے بارے میں میڈیا میں بہت اچھے تاثرات کا اظہار کیا جا رہا ہے- پاکستان کو سنگین اور حساس نوعیت کے معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے- توقع کی جا رہی ہے کہ اورنگزیب چونکہ عالمی سطح پر معروف ماہر مالیات ہیں- اس شعبے میں ان کا ریکارڈ شاندار رہا ہے اس لیے وہ پاکستان کو معاشی بحران سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے- نئے وزیر خزانہ کو پاکستان کے معاشی مسائل کا مکمل ادراک ہے- انہوں نے ایک انٹرویو میں درست فرمایا ہے کہ ان کے اقدامات سے عوام کو علم ہو جائے گا کہ ان کی ترجیحات درست سمت میں ہیں-انہوں نے کہا ہے کہ سادگی اور کفایت شعاری کے اصول پر عمل کیا جائے گا عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے گا اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے گا- نئے وفاقی وزیر خزانہ میڈیا سے دور رہیں اپنے کام پر توجہ دیں اور کسی کے دباو¿ میں نہ آئین اور مداخلت قبول نہ کریں تو وہ ایک کامیاب وزیر خزانہ ثابت ہوسکتے ہیں- ان کا ذاتی امیج ان کی اور پاکستان کی کامیابی کا ضامن بنے گا- ان کی نیک نیتی اور نیک نامی سے ترقی اور خوشحالی کے دروازے کھلتے جائیں گے- پاکستان کے عوام کو قوی امید ہے کہ وزیر خزانہ آئی ایم ایف سے بہتر شرائط پر قرضے کی قسط لینے میں کامیاب ہو جائیں گے- وہ ایسی معاشی بنیادیں رکھنے میں بھی کامیاب ہوں گے جن کے نتیجے میں پاکستان کو مالیاتی اداروں سے قرضے لینے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی - امید ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف نئے وزیر خزانہ کو فری ہینڈ دیں گے- نئی وفاقی کابینہ کو عوام کے وسیع تر مفاد میں مشکل فیصلے کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے - ایف بی آر میں ان اصلاحات پر عملدرآمد کرنا چاہیے جو عمران خان اپنی کمزور مخلوط حکومت کی وجہ سے کرنے سے قاصر رہے- ہر چند کہ موجودہ حکومت پر انتخابی دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں- اگر نئی وفاقی کابینہ مثالی اور معیاری گورننس کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہو گئی تو حکومت کے خلاف دھاندلی کے الزامات بے اثر ہو جائیں گے جبکہ حکومت کی خراب کارکردگی اس کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کر دے گی اور نئی حکومت کے لیے اپنی مدت پوری کرنا مشکل ہو جائے گا-
نئی کابینہ کا تیسرا بڑا منصب وزیر داخلہ کا ہے جس پر پنجاب کے سابق نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نامزد ہوئے ہیں- انہوں نے پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے نیا ریکارڈ قائم کیا تھا البتہ ان کے دور میں چادر اور چار دیواری کو جس سنگدلی کے ساتھ پامال کیا گیا وہ تاریخ کا ایک ڈراو¿نا خواب ہے- امید کی جانی چاہیے کہ وہ سیاسی انتقام کی بجائے سیکورٹی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرکے پاکستان کو پر امن ملک بنائیں گے تاکہ پاکستان کا ماحول اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ہو سکے -
احسن اقبال کو ایک بار پھر منصوبہ بندی کا قلمدان سونپا گیا ہے جس کا ان کو کافی تجربہ ہو چکا ہے- وہ اگر سی پیک اور دوسرے میگا پراجیکٹس بر وقت مکمل کرانے میں کامیاب رہے تو دنیا اور آخرت دونوں سنوارنے میں کامیاب ہو جائیں گے - نئی وفاقی کابینہ کے باقی وزراءبھی تجربہ کار سیاسی شخصیات ہیں- نئی کابینہ سیاست دانوں اور ٹیکنوکریٹس کا امتزاج ہے- وزیراعظم شہباز شریف نے اخراجات کم کرنے اور سادگی اختیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے- وہ شاید بھول گئے کہ انہوں نے اپنے گزشتہ دور میں ناصر سعید کھوسہ کی سربراہی میں سادگی اور کفایت شعاری کی سفارشات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے مشاورت کے ساتھ کلیدی نوعیت کی سفارشات مرتب کی تھیں جو وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں موجود ہیں - وزیراعظم اگر خود ان سفارشات پر عمل کرکے رول ماڈل بنیں تو کابینہ اور بیوروکریسی پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں- نئی کابینہ کی کامیابی کے لیے لازم ہے کہ اسے سازگار سیاسی ماحول میسر ہو۔ اگر پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا تسلسل جاری رہا تو حکومت کی کامیابی کے امکانات مخدوش ہو جائیں گے- وفاقی کابینہ کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ سیاسی اشتعال کے خاتمے کے لیے سٹریٹیجی تشکیل دے تاکہ اپوزیشن کی جائز شکایات کو دور کیا جا سکے -
پاکستان کے نئے صدر آصف علی زرداری سیاست کے اہم ترین کھلاڑی ثابت ہوئے ہیں- وہ پاکستان میں سیاسی اشتعال کو ختم کرنے کے لیے نتیجہ خیز کردار ادا کر سکتے ہیں- اگر وہ تحریک انصاف اور حکومتی جماعتوں میں مفاہمت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ان کا یہ کارنامہ تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا- پاکستان کے عوام کا اہم ترین مسئلہ مہنگائی ہے جس کے خاتمے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا- اس انتخابی وعدے کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کیا جانا چاہیے- 300 یونٹ فری بجلی کا وعدہ بھی سب سیاسی جماعتوں نے کیا تھا اس وعدے پر بھی عمل ہونا چاہیے - اپوزیشن جماعتیں دھاندلی کی بات ضرور کریں مگر عوام ان سے توقع رکھتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں عوام کے مسائل پر بھی توجہ دیں گی اور سیاسی محاذ آرائی کے ماحول میں عوام کے مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا-
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اگلے پانچ سالہ روڈ میپ کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا ہے- جس کے مطابق ادارہ جاتی اصلاحات کرکے اداروں کی کارکردگی میں اضافہ کیا جائے گا - افراط زر میں کمی غربت کے خاتمے اور روزگار کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی جائے گی- ترقیاتی منصوبوں کو بر وقت مکمل کیا جائے گا تاکہ ان کی لاگت میں اضافہ نہ ہو سکے-