روزے کی فضیلت یہ ہے کہ انسان کا تمام جسم اوورہال ہوتا ہے جیسے گاڑی کا انجن اوور ہالنگ کے بعد مضبوط اور رواں ہوتا ہے اسی طرح روزے کی بدولت انسان کے گناہ رمضان میں دھل جاتے ہیں۔ انسان روزے کی کیفیت میں دل و جان کے ساتھ اللہ کے قریب ہوتا ہے۔ گناہوں سے بچ جاتا ہے اور اپنی خامیوں کا خود ہی محاصبہ کرتا ہے اور نیک کام کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ خصوصاََ ماہ رمضان کے ایام میں ہر برائی سے دور رہے ،ویسے تو اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے جب انسان صدق دل سے خدا کے حضور گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی کا خواستگار ہو تو خداوند کریم اتنا غفور و رحیم ہے کہ فوراََ اس توبہ کو منظور کر لیتا ہے اور معاف کر دیتا ہے۔ لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بخشش کروانے کی بجائے لوگ اس سخت مہنگائی کے دوران سارا سال چیزیں اتنی مہنگی نہیں کرتے جتنی رمضان میں کرتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں وہاں کی گورنمنٹ جو ہر مذہب کے تہواروں پر اشیاءاتنی سستی کر دیتی ہے کہ لوگ آسانی سے خرید لیتے ہیں۔
ایک واحد ہمارے ملک کے لوگ ہیں جو اس داﺅ پر ہوتے ہیں کہ جتنی بھی کمائی کرنی ہے وہ رمضان کے مہینے میں کر لیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ یہ بخشش کا مہینہ ہےاس مہینے میں انسان کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جیسے خزاں میں درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔ ہمارے تاجر اس مہینے میں نا صرف غریبوں کا خیال نہیں کرتے بلکہ روزوں میں ان بے چاروں کی زندگیاں اجیرن کر دیتے ہیں۔ چولہے تو ان کے ویسے ہی نہیں جل رہے ہوتے۔ سفید پوش لوگ جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے بڑے مجبور ہو جاتے ہیں ان کا حال سوائے اللہ کی ذات کوئی نہیں جانتا۔ کیا ان تاجروں کی نمازیں،روزے اور عمرے قبول ہو جائیں گے؟ شرط یہ ہے کہ معاملہ اللہ اور بندے کا ہو ورنہ حقوق العباد کے بارے میں ارشاد ہے کہ جب تک ایک شخص جس نے دوسرے سے زیادتی کی ہو اس سے معافی نہیں مانگے گا تو اللہ بھی اس کو معاف نہیں کرے گا۔
رمضان شریف کا پہلا عشرہ رحمت،دوسرابخشش اور تیسرا دوزخ سے رہائی کا ہے۔اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیئے۔ روزہ نفس اور جسم کی اصلاح کرتا ہے۔ رمضان مبارک ہمیں درس دیتا ہے کہ ہم اللہ سے مانگیں اور اسکے بندوں کی حاجت روائی کریں جس کی قدرت میں سب کچھ ہے۔وہ دینے والا ہے اور ہم لینے والے ہیں۔
ٹیلی ویژن پر مختلف کھانوں کے ایڈز (Ads) آتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ بات بھی درست نہیں ہے۔ طرح طرح کے پکوان افطاری کی میز پر چنے ہوتے ہیں۔ ایک پورے کنبے کو افطار ی کرتے ہوئے دکھاتے ہیں جہاں دنیا بھر کی چیزیں میز پر لگی ہوتی ہیں۔ غریب لوگوں کے دلوں پر کاا گزرتی ہے، صرف اللہ ہی دیکھ سکتا ہے۔ ہماری قوم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو چکی ہےجبکہ مجھے دوبارہ کہنا پڑتا ہے کہ ساری دنیا میں لوگوں کے خاص تہواروں پر سستی چیزیں بکتی ہیں۔ ہمارے مسلمانوں نے کلمہ طیبہ پڑھا ہے کچھ زیادہ ہی مسلمان ہیں اس لئے مہنگی چیزیں فروخت کرتے ہیں۔ شاید یہ مسلمانوں کی فطرت میں ہے۔
یہ مہینہ انسانی ترقی اور عروج کا مہینہ ہے۔ اگر روزہ کے دوران اپنے غصے پر قابو پا کر تحمل مزاجی اور صبر سے کام لیں تو خداوند تعالیٰ اس شخص پر اپنی رحمت کی بارش کرتا ہے۔ اس مہینے انسان کو چاہیئے کہ زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرے اور اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی کوشش کرے اور ساتھ ساتھ صدقہ اور زکوٰة غریب لوگوں کو دیں تاکہ وہ روزے آسانی سے رکھ سکیں۔ بے شک اللہ بڑ ا مہربان اور غفورالرحیم ہے۔ وہ بندے کو فوراََ معاف کر دیتا ہے بشرطیکہ وہ اللہ کے احکام پورے ادا کرے اوراستغفار زیادہ سے زیادہ پڑھنا چاہیئے۔ ایک چھوٹی سی مثال دیتی ہوں کہ ایک بچہ شرارت کرتا ہے اور ساتھ ہی اپنی ماں سے معافی مانگ لیتا ہے تو ماں کا دل خوش ہو جاتا ہے اور وہ اس کو معاف کر دیتی ہے۔ اللہ تو قادر مطلق ہے وہ انسان کو کیوں نا معاف کرے۔ لیکن ایک انسان کو بھی اچھا انسان ہونا چاہیئے۔عموماََ ہر نماز کےلئے جب وہ وضو کرتا ہے تو وہ پاک ہو جاتا ہے اور اسکے گناہ جھڑنے لگتے ہیں۔
روزہ صرف بھوکے،پیاسے رہنے اور کچھ نہ کھانے کا نام نہیں ہے۔روزہ ایک آزمائش سے گزرنے کا نام ہے جسے صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کا بندہ اس آزمائش پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔
روزہ تزکیہ نفس کےلئے ایک ذریعہ ہے حتیٰ کہ ہر قسم کی برائی سے روکتا ہے۔ اس ضمن میں خواجہ شمس الدین سیالوی نے فرمایا۔
”جو شخص روزہ رکھتا ہے اورکسی کی عیب نکتہ چینی کرتا ہے، اہل شریعت کے نزدیک اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے“
لیکن افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ آجکل کے دور میں بعض لوگ روزہ رکھ کر ہر کام وہ کرتے ہیں جس سے اللہ اور اس کا رسول خوش نہیں ہوتا۔ چیزوں میں ملاوٹ ،کاروبار میں جھوٹ اور فریب ،بات بات پر جھوٹی قسمیں ،ہر ناجائز کام کو جائز سمجھ کر کرنا اور یہ سوچ کر نماز پڑھنا کہ روزے دار ہوں، اللہ معاف کر دے گا۔
اللہ ایسی باتوں سے خوش نہیں ہوتا اور ایسا شخص جو صرف اور صرف خدا کی خوشنودی کےلئے اچھی نیت سے روزہ رکھتا ہے، کسی کی غیبت اور برائی نہیں کرتا تو اللہ اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیتا ہے۔
آج کے نفسا نفسی کے دور میں جو اپنے نفس کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے۔ اگر انسان خدا کی راہ میں سچ کا دامن تھامے رکھے تو خدا اس کی مدد فرماتا ہے اور پھر کسی قسم کی آنچ نہیں آتی۔
اگر انسان ایک نظر ڈالے تو اسے پتہ چل جائے گا کہ وہ مسلسل اللہ کی ناراضگی مول لے رہا ہے لہٰذا اس کے انجام پر بھی نظر ڈالنی چاہیئے اور سوچنا چاہیئے کہ ماضی میں کیوں اقوام برباد ہوئیں۔ زلزلے ،وبائیں سیلابب کیوں آتے رہے اور یہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیئے کہ قوانین قدرت ہیں جن سے بچاﺅممکن نہیں۔ ہاں اگر اللہ سے نیک دلی سے معافی مانگ لی جائے تو عذاب ٹل جاتے ہیں۔
لہٰذا یہ سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے کہ بنی نوع انسان کی کیا اہمیت ہے۔
میری دعا ہے کہ ماہ رمضان کے بابرکت مہینے میں اللہ تاجروں کو ہدایت دے اورغریبوں کو ہو سکے تو کم قیمت پر چیزیں فروخت کریں تاکہ وہ بھی افطاری کرنے کی سکت رکھ سکیں۔ اگر تاجر ایسا کریں گے تواللہ ان کو اور بھی نوازے گا۔