فیض عالم
قاضی عبدالرﺅف معینی
ملک عزیز میں ایک بار پھر حکومت کی تبدیلی کا مرحلہ مکمل ہوتے ہی ملک بھر سے سیاہ و سفید لینڈ کروزریں اور ڈالے اسلام آباد، لاہور ،پشاور ،کوئٹہ اور کراچی کی سڑکوں پردندنا رہے ہیں۔سائرنوں اور ہوٹروں کی آوازوں نے لرزہ طاری کیا ہوا ہے ۔کسی طور نہیں لگتا کہ یہ کسی مقروض اور غریب ملک کے عوامی نمائندے ہیں ۔دن بھر پروٹوکول اور سیکورٹی کے نام پر طویل وقت کے لیے سڑکوں اور شاہراہوں کی بندش سے زندگی عذاب بن گئی ہے۔ وہی چہرے ایک بار پھر اسمبلیوں کی زینت بن چکے ہیں۔کیا کریں کہ مملکت خداداد کی تاریخ میں ایک سیاسی جمود طاری ہے ۔” چہرے نہیں نظام کو بدلو“ کا نعرہ سن سن کر کان پک گئے لیکن نہ تو نظام بدلا اور نہ ہی چہرے۔ کرسی کے اس کھیل میںنظام بدلنے پر کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔عوام کے حالات میں بہتری کی کوئی کوشش نہیں کی گئی جس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ہر دور میں ڈنگ ٹپاﺅ پالیسیوں سے کام چلایا جاتا رہا۔ستم یہ بھی ہے کہ یہ ساری کی ساری پالیسیاں عوام دشمن بھی ہیں اور غریب دشمن بھی ۔صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ
نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
صورت حال یہ ہے کہ حکمرانوں کے جہان میں اور عوام کے جہان میں زمین و آسمان کافرق ہے۔”دو نہیں ایک پاکستان “کے نعرے لگتے رہے ۔کئی انجینئرز نیا پاکستان بنانے کی جستجو میں بھی لگے رہے نیا کیا بننا تھا پرانا بھی کمزور ہو گیا۔عوام کے حالات بد تر سے بد تر ہوتے چلے گئے ۔حکمرانوں نے نہ کبھی عوام کے درمیان زندگی گزاری ہے نہ انہوں نے کبھی غربت کاذائقہ چکھااس لیے انہیں نہ عوام کے مسائل کا اندازہ ہے نہ بھوکے کی نفسیات کا ۔خادم پاکستان محترم جناب میاں شہباز شریف صاحب اور خادمہ پنجاب محترمہ مریم نواز صاحبہ نے اپنے ابتدائی خطابات میں ملک کے معاشی ،معاشرتی اور سماجی مسائل کو حل کرنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے ۔اللہ پاک ان کو اپنے ارادوں میں کامیابیاں نصیب فرمائے ۔اور دعا گو ہیں کہ یہ دور حکومت عوام کی بہتری کا دور ہو۔خوشامدی اور چاپلوس نمائندوں اور انتظامیہ نے حالات ایسے بنا دیے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں تک عوام کی سسکیاں، آہیں اور چیخیں نہیں پہنچ پا رہیں کیونکہ پاکستان میں ایوان اقتدار ساونڈپروف ہے اور چمچے اور کڑچھے سب اچھا کی رپورٹ بھی دے رہے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ وہی حکمران دلوں پر راج کرتا ہے جو عوامی ہو۔اس نظام حکومت کا برا ہو جس نے عوام میں اور حکمرانوں کے درمیان اونچی دیواریں کھڑی کر دیں ہیں۔اگر حکمران دل سے ملکی حالات کی بہتری چاہتے ہیں تو انہیں زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹھوس اور دیرپا فیصلے کرنے ہوں گے ورنہ یہ پانچ سالہ دور حکومت تو گزر ہی جائے گا۔
اس وقت عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے ۔عام آدمی کے لیے زندگی بوجھ بن گئی ہے۔ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز مافیا نے اشیاءخوردونوش عام آدمی کی پہنچ سے دور کر دی ہیں۔اس کا مشاہدہ ماہ رمضان کریم میں بخوبی کیا جا سکتا ہے۔حکومت اس مافیا کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔یا تو یہ سب کچھ انتظامیہ کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے یا نا اہلی سے ۔دونوں صورتوں کا بندوبست ضروری ہے۔حکومت اس بے لگام طبقے کو لگام دے دے اربوں روپے کے پیکج بے شک نہ دے۔ویسے بھی اس پیکج کا بڑا حصہ مستحق اور حق دار تک پہنچنے کی بجائے کہیں اور چلا جاتا ہے۔ملک عزیز میں اس پیکج کی تقسیم کا طریقہ اتنا گھٹیا اور شرمناک ہے کہ فرد کی عزت نفس کو کچل دیا جاتاکئی دفعہ تو افراد بھی کچلے جا تے ہیں ۔اس لیے باعزت اور سفید پوش اس عنائت سے محروم رہ جاتے ہیں۔لنگر خانے اور انکم سپورٹ پروگرام گداگری کو فروغ دے رہے ہیں۔تعلیم اور ہنر کو فروغ دیں ،نوجوانوں کو روزگار دیںتاکہ بھیک کے کلچر کو دفن کیا جا سکے۔ملک عزیز میں علاج معالجہ ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات ناکافی ہیں چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں تو سرے سے ہیں ہی نہیں۔ مہذب ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم ، صحت اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے ،پاکستان میں بھی ہے لیکن صرف مراعات یافتہ طبقہ کے لیے۔اس کا دائرہ کار عام آدمی تک بھی جانا چاہیے۔صحت کارڈکا ڈرامہ بند کر کے ہر مریض کے لیے سرکاری ہسپتال میں مفت علاج کو یقینی بنایا جائے۔وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے کچھ اضلاع میں احساس محرومی ،مایوسی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ترقیاتی فنڈز لاڈلے لے جاتے ہیں۔ضلع جہلم کی ایک سڑک تین سال سے ناقابل استعمال ہے اس پر کام رکا ہوا ہے لیکن کسی کو اس ضلع کی عوام کے دکھ اور تکلیف کا کوئی احساس نہیں۔فوری طور پر فنڈز جاری کر کے سڑک کا منصوبہ مکمل کیا جائے۔بجٹ کا ایک بڑا حصہ عیاشیوں اور اللوں تللوں پر ضائع ہو رہا ہے۔غریب اور مقروض ملک کا خزانہ بڑی لگژری گاڑیوں ،پر تعیش دفاتراور رہائشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔سرکاری محکمے اور انتظامیہ عوام کی خدمت کی بجائے عوام کو خجل خوار کرنے کے مراکز بن گئے ہیں۔اصلاح احوال کے لیے بقول میاں شہباز شریف صاحب ” منجی تھلے ڈانگ پھیرنے “ کی ضرورت ہے۔پنجابی زبان و ادب کے اس محاورے کا مطلب یہ ہے کہ خوشامدیوں، چاپلوسوں، نااہلوں کو محکموں سے نکال باہر کیا جائے اور صرف مخلص، عوام دوست اور قابل افراد کو آگے لایا جائے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے نا ممکن نہیں۔ایک بار کر کے دیکھ لیں۔اس کے بغیر ملک عزیز کی ترقی سہانے خواب کے سوا کچھ نہیں۔