سید روح الامین
بلاشبہ انسان کو اطمینان قلبی اور قرب خداوندی تک پہنچنے کے لیے اسلام کی ضرورت ہے اور جب حضرت جبرائیل ؑ نے حضور اکرم سے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا: نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، زکوٰة دینا ، حج کرنا، یہ تمام طریقے ایک قسم کی تربیت ہیں۔ ارشاد ربانی بھی ہے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاﺅ۔ اسلامی ارکان میں عبادت کا ایک اہم رکن روزہ ہے۔ روزہ کیا ہے؟ یہ ایک فرض ہے۔ جس طرح نماز میں پانچ وقت کی حاضری اللہ کے قرب کا باعث بناتی ہے اسی طرح روزہ ہر سال ایک ماہ میں انسان اوررب کے درمیان رابطے کو مستحکم کرتا ہے یہ رابطہ صرف بندے اور خدا کا ہے اس میں کوئی تیسرا فرد حا ئل نہیں۔ نماز سب لوگوں کی موجودگی میں ادا کرلی۔ لوگوں نے دیکھا انہیں ثبوت ملا۔ زکوٰة کو لیں جن کو دی سب کو پتہ چلا۔ حج اجتماعی رکن ہے سب کے سامنے ادا ہوتا ہے۔ لیکن روزہ ایک ایسی روحانی، پوشیدہ عبادت ہے جس کو کسی دوسرے کو خبر نہیں دوسرا کوئی فرد پوچھے تو ہاں یا نہ میں جواب دے کر اسے مطمئن کر دیں مگر رابطہ جب صرف خالق و مخلوق کا ہو تو مسئلے کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ عبادت کا ظاہری مفہوم باطنی پناہ گاہ میں چلا جاتا ہے نفس کشی صرف ولیوں کا ہی حصہ نہیں بلکہ ہر مسلمان ماہ رمضان میں اس لطف سے آشنا ہوتا ہے رمضان آیا صبح سے لے کر شام تک کھانا پینا بند ہوا۔ مغرب کی اذان ہوئی پھر کھانے کی طرف لپکے۔ روزہ کی تہہ میں اللہ کا خوف ہے اس کے حاضر و ناضر ہونے کا یقین ہے۔ اللہ کی محبت ہے کہ میں اس مخفی عبادت سے اس کا قرب حاصل کروں روزہ آخرت کی زندگی اور اللہ کی عباد ت پر یقین کامل کانام ہے۔ فرض کا احساس ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔ صبر و مصائب میں مقابلے کی مشق ہے۔ اللہ کی خوشنودی کے مقابلے میں خواہشات نفس کو روکنے اور دبانے کی طاقت کا نام روزہ ہے۔ ہر سال رمضان کا مہینہ آتا ہے تاکہ پورے تیس دن تک یہ روزے مسلمانوں کی تربیت کریں اور نفسیاتی اصول دیکھیں کہ اللہ نے تمام مسلمانوں کیلئے روزہ ایک ہی مہینہ میں فرض کیا اس کے بے شمار دوسرے فائدے ہیں ساری اسلامی دنیا میں پورا مہینہ پاکیزگی کا چنا۔ اس فضا میں برائیاں دب جاتی ہیں اور نیکیاں ابھر آتی ہیں۔ اچھے لوگ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ برے لوگ برائی کے کاموں سے شرماتے ہیں۔ امیروں میں غریبوں کی مدد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کی راہ میں مال صرف کیا جاتا ہے سارے مسلمان ایک خاص حال میں ہوتے ہیں ان کے اندر احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہم سب ایک جماعت ہیں حدیث پاک میں بھی ہے کہ روزہ بدن کی زکوٰة ہے۔ اقوام مغرب کو دیکھئے، فرحت کے نت نئے طریقوں کی ایجاد نے ان کے اضطراب کو کم کرنے کی بجائے اور بڑھا دیا ہے۔ مگر مسلمان کو دیکھیے کہ وہ ماہ رمضان میں ایک ایسی تربیت لیتا ہے جو اسے ہر برے کام سے روک سکتی ہے ذرا اس خوبصورت نفسیاتی حقیقت پر غور کریں کہ جب ایک مسلمان دن بھر اپنے پسندیدہ لوازمات اور جذبات پر قابو پاسکتا ہے تو یہ بات دعویٰ کے ساتھ کی جاسکتی ہے کہ خدانخواستہ وہ شراب نوشی یا کسی گناہ میں مبتلا ہے وہ اپنے اندر اتنی خوداعتمادی رکھتا ہے کہ و ہ ان سب برے افعال سے اپنے آپ کو روک سکے دنیا کا کوئی ماہر نفسیات اتنا خوبصورت اصول اور نفسیاتی تربیت وضع نہیں کر سکا جو اللہ کریم نے انسان کیلئے کر دی ہے۔ اللہ کریم نے اس رابطے کو اپنے ساتھ مضبوط کرنے کےلئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ”روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا“ تو انسان اس حکم کو دل سے ماننے کے بعد جواب دیتا ہے کہ واقعہ ہی میرا روزہ تیرے لئے ہے اور میں تجھ سے ہی جزا طلب کروں گا یہاں آکر انسان کے اندر معاشرتی و نفسیاتی بیماریاں جسے آپ اخلاقی بیماریاں مثلاً طمع، حرص، جھوٹ، بخل، چوری، حسد کہتے ہیں سب ایک طرف رہ جاتی ہیں اور جب اس تربیت سے یہ اخلاقی بیماریاں دور ہو جاتی ہیں تو ایسے افراد سے ایک خوبصورت خوشحال معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ افراد کی دین اور دنیا سنور جاتی ہے آج بھی ہمیں اس تربیت کی ضرورت ہے اس سکون قلبی کی ضرورت ہے جس کا متمنی انسان اور اسلام ہے اس لئے سب عہد کریں کہ اس بار رمضان المبارک کے تمام نفسیاتی، روحانی، جسمانی اور سماجی فائدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی تربیت کریں گے۔