جس دیے میں جان ہو گی، وہ دیا رہ جائیگا


 اُلٹ پھیر....شاہد لطیف
kshahidlateef@gmail.com

    نامور شاعر محشر بدایونی کا ایک شعر نظر سے گزرا جس پر کالم موزوں ہو گیا: ” اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ، جس دیے میں جان ہو گی، وہ دیا رہ جائے گا “۔ عام انتخابات کہیں کے بھی ہوں گھر، بازار، دفاتر، عوامی اور تعلیمی مراکز میں بحث مباحثہ شروع ہو جاتا ہے۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں چوں کہ دو جماعتی سیاسی نظام ہے اس لئے صدارتی انتخاب سے کچھ عرصہ پہلے قومی ذرائع ابلاغ پر ریپبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد صدارتی امید وار آمنے سامنے تقریر کرتے ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پچھلے چند سالوں سے مقدمات اور الزامات کی زد میں ہیں۔ امریکی تاریخ میں ٹرمپ وہ پہلے صدر ہیں جن پر ان کے مخالفوں نے چار کیسوں میں 91 فوجداری الزامات لگوا دیے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے قانونی مسائل یہاں ختم نہیں ہوتے بلکہ انہیں کئی ایک دیوانی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔پھر کچھ فیصلہ طلب اپیلیں بھی ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم پر لگائے گئے دھوکے اور فراڈ کے 34 الزامات بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے سیاسی مقاصد کار فرما ہیں۔انہوں نے رپورٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ” انتخابات میں مجھے زچ کرنے کا ایک بھونڈا طریقہ ہے “۔ایک کیس کی شنوائی 25 مارچ کو متوقع ہے۔یہ بھی کسی امریکی صدر پر پہلا فوجداری مقدمہ ہو گا۔ پھر اُن پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ انہوں نے 2020 کے انتخابات میں جو بائڈن کی جیت کو سازش کے ذریعہ ہار میں بدلنے کی کوشش کی۔ ایک الزام یہ ہے کہ انہوں نے متعلقہ افسران پر ناجائز دباﺅ ڈلوا کر نتائج کو بدلوانے کی کوشش کی ۔ پھر اپنا اقتدار قائم رکھنے کی خاطر جو بائڈن کے فراڈ سے جیتنے کی باتیں پھیلا ئیں اور عوام کو اکسا کر 6 جنوری 2021 کو کیپیٹل ہِل کی عمارت کے سامنے فسادات کروا دیے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اُس وقت بھی اور اِس وقت بھی ان تمام الزامات کو غلط قرار دیا۔مذکورہ کیس غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی ہو گیا ہے۔ اُسی زمانے میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں بھی آڈیو لیک کی واضح گونج سُنائی دی۔مبینہ طور پر امریکی ریاست جارجیا میں ٹرمپ اور ان کے 18 ساتھیوں نے 2020 کے انتخابات میں معمولی ووٹوں کے فرق سے جو بائڈن کی جیت کو اس کی ہار میں بدلنے کی سازش کی۔اس گفتگو میں ” 11,780ووٹوں کی تلاش “ کے بارے میں کہا جا رہا ہے۔اُدھر ڈونلڈ ٹرمپ نے بار بار اس الزام کی پُر زور تردید کی ہے۔ سابق صدرکے لئے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ ’ کلاسیفائڈ ڈاکومنٹس ‘ کا غلط استعمال کرتے ہوئے صدارتی مدت ختم ہونے پر اہم ڈاکومنٹس وائٹ ہاﺅس سے اپنے گھر لے گئے تھے۔پھر ایف بی آئی والوں کو اس سلسلے میں تحقیق سے بھی روکا۔کہا گیا کہ یہ حساس نوعیت کی قومی دفاعی معلومات تھیں جو جاسوسی ایکٹ کے زمرے میں آتی ہیں ! ڈونلڈ ٹرمپ نے اس الزام کو بیہودہ اور گمراہ کُن کہا۔اس کیس کو مئی میں سنا جانا تھا مگر اب یہ نومبر 2024 کے صدارتی انتخابات کے بعد ہی ممکن ہو سکے گا۔سوال ہے کہ اس جرم کی سزا کیا ہے؟ جاسوسی ایکٹ کے تحت کسی دوسرے ملک کے لئے جاسوسی کرنے پر 10 سال کی سزا ہے۔انتہائی اہم معلومات چھپانے پر 20 سال۔ امریکی ماہرِ قانون کے نزدیک سابق صدر کے لئے ایسی سزا دینا ممکن نہیں ! پھر اِن پر عدالت سے غلط بیانی کرنے کے بھی آٹھ عدد کیس ہیں۔ سابق صدر نے یہ الزامات بھی مسترد کر دیے۔ میری دانست میں سابق امریکی صدر ٹرمپ پر الزامات در الزامات لگنے اور بے شمار کیسوں کے پیچھے ایک بڑی وجہ ان کی یہ سوچ اور ارادہ ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر کے پاس مزید طاقت اور اختےارات ہونے چاہییں، جس سے وہ خود سرکاری ملازمین (افسران) کو بھرتی کر سکے اور خراب کارکردگی پر گھر واپس بھیج سکے۔وہ بے قابو ہاتھی بنتی ہوئی نوکر شاہی کے متبادل پر بھی زور دیتے ہیں ۔ رواں سال نومبر میں ہونے والے امریکی انتخابات میں کچھ پرانے گڑے مردے اُٹھ رہے ہیں۔ ان میں ’ کلائمیٹ چینج ‘ بھی ہے۔ ٹرمپ اپنے پرانے موقف پر قائم ہیں کہ اس کی وجہ سے امریکی قومی توانائی کا شعبہ تباہ ہو رہا ہے۔گو کہ تعلیم امریکی صدارتی انتخابی مہم کا کوئی خاص نعرہ نہیں پھر بھی تعلیم کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ بہت مختلف ہے۔اُن کے مطابق طلباءکے والدین/ سرپرستوں کے پاس اسکولوں کے معاملات کا زیادہ اختےار ہونا چاہےے نیز اِن ہی کے پاس پرنسپل مقرر کرنے اور اور خراب کارکردگی پر اُسے گھر بھیجنے کا اختےار ہو ۔نہ جانے کتنے امریکی صدور آئے اور چلے گئے لیکن امریکی ریاستیں تعلیمی میدان میں ایک زمانے سے طلباءکو ملین ہا ڈالر تعلیمی قرضوں کی صورت دیتی رہیں۔حیرت کی بات ہے کہ جو بائڈن نے صدارت کی کرسی پر بیٹھ کر اس تعلیمی قرضے کو بند کر دیا اور یوں اپنی پارٹی کو تعلیمی شعبے کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں ووٹوں سے محروم کرا دیا۔ڈونلڈ ٹرمپ ، جو بائڈن کے بہت بڑے ناقد ہیں۔ ووٹ دینے والی عمر کے بے شمار نوجوان اس تعلیمی قرضوں کی دوبارہ بحالی پر ٹرمپ کو ووٹ دے کر اپنی خوشی اور تشکر کا اعلان کرنے والے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کی صورت میں ٹرمپ کے پاس ایک ایسا کارڈ ہے جو 2016 کے انتخابات میں بھی اچھا چلا اور اب بھی زراعت کے پیشے سے وابسطہ افراد، چھوٹی بڑی فیکٹریوں کے محنت کش، ہر ایک طرح کے صنعت کار اور برآمد کنندگان ایک بہت بڑی تعداد میں ڈونلڈ ٹرمپ کے معاشی پروگرام کے حامی ہیں۔ خارجہ امور میں 2016 کی طرح ’ سب سے پہلے امریکہ ‘ اب بھی ان کا نعرہ ہے۔ ٹرمپ کی ترجیح ہو گی کہ ناٹو سے دفاعی وعدے وعید اور معاہدوں، خاص طور پر یوکرائن کے معاملے سے باہر نکلا جائے ۔ اُدھر پاکستان سمیت دیگر ممالک میں ٹرمپ کی اسرائیل اور امیگریشن پالیسی کے بارے میں لے دے ہو رہی ہے۔ جناب یہ بالکل بجا لیکن یہ بھی تو سوچیں کہ وہ ا مریکی صدارتی انتخابی مہم کے نعرے اور نکات ہیں ہمارے نہیں ! یہ وہی ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جنہوں نے 2016 میں امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوجی یا حکومتی تجربہ کے بغیر صدارتی انتخاب جیت کر دکھا دیا !! اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی تاریخ میں ایسی کوئی ایک مثال بھی نہیں ! سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس کے حکومت کرنے کا ڈھنگ بھی غیر روایتی تھا۔ مُلک کوئی بھی ہو عام آدمی کے مسائل ایک سے ہوتے ہیں۔امریکہ سے باہر رہنے والوں کی دلچسپی محض اتنی ہوتی ہے کہ رےاست ہائے متحدہ امریکہ کا نیا صدر ان ممالک سے تعلقات اور دو طرفہ تجارت میں کیسی پالیسی لاتا ہے۔اصل معرکہ تو امریکی عوام خود لڑتے ہیں کہ ان کے بڑے مسائل کون سا صدارتی امید وار بہتر طور پر حل کر سکتا ہے۔ پھر محض نعروں سے کام نہیں چلتا۔عوام جانے والی حکومتی پارٹی کی کارکردگی کی بنیاد پر ہی فیصلہ کرتی ہے کہ اس پارٹی کو ووٹ دوں کہ نہیں !! ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بسنے والا ہر ا یک باشندہ کروڑ یا ارب پتی نہیں ! وہاں بھی غربت ، افلاس اور بھوک نظر آتی ہے۔وہاں کے بھی تمام مزدور چین کی بانسری نہیں بجا تے ، وہاں کے بھی سب دہقان آسودہ حال نہیں ! بیروزگاری اور مہنگائی وہاں بھی سب سے بڑے مسائل ہیں۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ وسائل کے لحاظ سے مالا مال ہے۔ ظاہر اً تو عوام صدارتی امید وار ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی منشور سے مطمئن نظر آتے ہیں۔جو بائڈن کی حکومت میں ان کے بنیادی مسائل کم ہوئے یا بڑھے ؟ بے روزگاری کو کم کرنے کی کوئی حکمتِ عملی کامیاب بھی ہوئی ؟ زراعت سے وابستہ صنعتوں کے مسائل کے لئے کیا کیا گیا؟ محشر بدایونی کی غزل کا یہ شعر ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہونے والے نومبر 2024 کے صدارتی انتخاب پر بالکل ٹھیک بیٹھتا ہے: 
     اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
     جس دیے میں جان ہو گی، وہ دیا رہ جائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ای پیپر دی نیشن