آصف علی زرداری : دوسری مدت صدارت مبارک



سردار نامہ .... وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com 
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی

آصف علی زرداری دوسری مرتبہ صدر پاکستان بنے ہیں ،ان کو مبارک ہو کہ انھوں نے وفاق پاکستان کے نمائندے کے طور پر یہ منصب سنبھالا ،لیکن اب حالات ان کے پہلے دور صدارت سے بہت مختلف ہیں ۔اس دور میں اسمبلی یا پارلیمان کو اکھٹا کرنا آسان تھا اس دور میں اتنی سیاسی پو لر ئزیشن نہیں تھی جتنی کہ اب ہو چکی ہے ،وہ دور دو پارٹیوں کا دور تھا اور یہی وجہ تھی کہ اس دور میں پارلیمان سے 18ویں ترمیم بھی منظور کروا لی گئی ۔لیکن اب کی بار بہت ہی مختلف حالات صدر زرداری کو درپیش ہیں ،ایک نہا یت ہی ہٹ دھرم اپوزیشن ہے،جو کہ تعداد میں بہت بڑی ہے اور اس کو کسی بھی طرح ایک معمول کی اپوزیشن نہیں کہا جاسکتا ہے ،اور وقت اتفاق رائے سے کوئی ترمیم لانا جو ئے شیر لانے کے مترادف ہے ،اس مرتبہ اپوزیشن کا ایجنڈا ہی مختلف ہے اور اپوزیشن حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے ۔اللہ کرے کہ اپوزیشن اپنے بیانئے سے باہر آئے اور آئین سازی اور قانون سازی میں مشغول ہو اور ملک اور عوام کی بہتری کے لیے حکومت سے مل کر کام کیا جائے ،اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ آئین سازی ہی بہت ساری مشکلات کا حل ہے اور ہمیں اس حوالے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔18ویں ترمیم اس حوالے سے ایک بہترین مثال ہے ،میں یہ نہیں کہہ رہا کہ 18ویں ترمیم میں کوئی سقم موجود نہیں ہے لیکن عمومی طور رپر 18 ویں ترمیم ایک لینڈ مارک کے طور پر دیکھی جاتی ہے ،اور یقینی طور پر اس بات سے کسی طور پر بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس ترمیم کی وجہ سے صوبوں کو اختیارات ملے صوبوں کو مالی استحکام ملا اور وفاق پاکستان اس ترمیم کی وجہ سے مضبوط ہوا ہے اور اس ترمیم نے چھوٹے صوبوں کے گلے شکوے دور کرنے کے حوالے سے بھی اہم کردار ادا کیا ہے اور بڑا اور اہم کام صدر زرداری کے دور میں ہی پارلیمنٹ سے کیا گیا ،اس مرتبہ بھی صدر زرداری سے بطور صدر یہ امید کی جارہی ہے کہ وہ پہلے کی طرح اسی طرح سے ایسا کو ئی بڑا اقدام اٹھائیں گے جو کہ ملک اور اس کی بنیادوں کو مزید مضبوط کرے گا ،اور آصف علی زرداری اپنے لمبے ہاتھوں سے یہ کام موجودہ اپوزیشن کی موجودگی میں بھی کروا لیں گے اور ان کو ساتھ ملانے میں کامیا ب رہیں گے یہ بات بہت ہو گی ،اگر صدر زرداری ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال میں ہی بہتری لانے میں کامیاب رہیں تو یہ بھی ان کی بڑی کامیابی ہو گی اور ان سے اس حوالے سے امید بھی کی جارہی ہے ،کہ وہ اس حوالے سے کوئی کلیدی کردار ادا کر سکیں ۔پاکستا ن کو اس وقت سیاسی استحکام اور مستحکم حکومت کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے کردار ادا کرنا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔بہر حال آصف علی زرداری کو ایک بار پھر مبارک باد کہ انھوں نے صدارت کا منصب ایک بار پھر سنبھالا ہے اور میری دعا ہے کہ وہ بطور صدر اسی طرح کامیاب ہوں جس طرح کہ وہ پہلے کامیاب ہو ئے تھے ۔آصف زرداری کی وجہ سے ہی اس وقت پیپلز پا رٹی کو بھی ایک نئی طاقت ملی ہے اور عوام کو ان سے کارکردگی کی بھی امید ہے ،اور امید ہے کہ وہ اپنی پر فارمنس کو بہتر کریں گے اور عوام کے مسائل حل ہو ں گے ۔اور پوری توقع ہے کہ آصف علی زرداری کا متحرک ذہن اس مرتبہ بھی کو ئی ایسی چیز سامنے لائے گا جو کہ اس ملک اور ملت کی بہتری اور مضبوطی کا باعث بنے گا ،شاید کوئی نئی ترمیم لے کر آئی جائے جو کہ اس ملک کی مدد کرسکے بہر حال امید تو اچھی ہے لیکن بات پھر وہی آتی ہے کہ اللہ اپوزیشن کو ہدایت دے اور اپوزیشن کچھ عقل سے کام لے اور ملک کی بہتری کے لیے کام کرے اور آئین میں ترمیم کی جائے اور جس طریقے سے انھوں نے اسمبلی کا ماحول خراب کرنے میں پہل کی ہے اس روداد کو ترک کردیں ،اور اسمبلی کو حقیقی معنوں میں قانون سازی کا منبہ بنایا جائے جب تک اسمبلی پر سکون نہیں ہو گی اور اسمبلی کا ماحول بہتر نہیں ہو گا تب تک اسمبلی سے کسی بہتر نتیجے کی توقع کرنا مناسب عمل نہیں ہو گا ۔اپوزیشن سے میں یہی کہوں گا کہ مناسب طرز عمل اختیار کریں ،بردباری اور تحمل سے کام لیں اور قانون سازی اور آئین سازی میں حکومت کا ساتھ دیں ،درپیش حالات کی سنگینی اور نزاکت کو سمجھا جائے اور قوم کو ایک بنانے اور یکجا کرنے کی کو شش کی جائے ۔ہم ایک قوم بنیں حقیقی معنوں میں پاکستانی بنیں اور ہمارا یہ نصب العین ہو کہ ہم مکمل طور پر متحد اور یکجا ہو ں ،کوئی پنجابی نہ ہو سندھی نہ ہو پٹھان نہ ہو اور کوئی بھی بلوچی بھی نہ رہے ،ہمیں ایک قومی شناخت میں ڈھلنے کی ضرورت ہے ۔ابھی کوئی کیا ہے اور کوئی کیا ہے کوئی اتحاد نظر نہیں آتا ہے قوم نظر نہیں آتی ہے ،اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔قوم کو قوم بنانے میں جہاں پر ایک درس گاہ کا کلیدی کردار ہو تا ہے اس سے زیادہ کلیدی کردار پارلیمان کا ہو تا ہے جہاں پر ملک بھر کے سیاسی نمائندے عوام کی نمائندگی کے لیے موجود ہو تے ہیں ۔ہمیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔بہر حال قوم سازی وقت کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے جو غلطیاں ماضی میں دوہرائیں گئیں ہیں ان کو نہ دوہرایا جائے ۔ہمارا آئین ابتدا میں ہی بن چکا ہو تا اور سیاست دان بااختیار ہو تے تو ہم اس وقت ایک سیسہ پلائی ہو ئی دیوار ہو تے ،لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا ہے ۔ہمیں اس طرف بڑھنے کی ضرورت ہے ،ہمارے ایک قوم نہ بننے کی سب سے بڑی وجہ مارشل لاءرہے ہیں جو کہ ہمیں پیچھے کی طرف دھکیلتے رہے ہیں ،اور انتشار پیدا کرتے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے نظام اور جمہوریت میں بھی کو ئی پختگی نہیں آسکی ہے ۔سیاست دانوں کو ملک کے خراب حالات کا ذمہ دار تو ٹھہر ایا تو جاتا ہے لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جب بھی سیاست دانوں کو موقع ملا ہے تو سیاسی حکومتوں نے ملک کی تعمیر اور ترقی کے حوالے سے ایسے نقش و نگار چھوڑے ہیں جو کہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور مارشل لا ءادوار کے نقش و نگار سے یکسر طور پر مختلف ہو تے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن