انقلاب کی بنیاد

انتخابات کے دوسرے روز دھاندلی کے شور کا بگولہ اُٹھا جودن بدن طوفان بنتا جا رہا ہے۔ چند روز گَرد اُڑنے کے بعدغبار چھٹ جائیگا۔ دھاندلی کا الزام ہر پارٹی لگا رہی ہے، جُھرلو کی صدا کسی طرف سے نہیں اُٹھی۔ عالمی ادارے اور مبصرین اپنے مشاہدوں کے مطابق شفافیت اور غیر شفافیت کی رپورٹیں دے رہے ہیں۔ ہم بلا وجہ ان کا حوالہ دیتے ہیں‘یہ رپورٹیں پاکستانیوں کیلئے نہیں غیر ملکیوں کیلئے ہیں، ہم تو الیکشن کا حصہ ہیں۔ ہم پاکستانیوں سے زیادہ کسی کو کیا معلوم کہ کہاں کیا ہُوا ہے۔ ہم اپنے سیاسی کلچر کو خوب جانتے ہیں۔ ہر پارٹی دھاندلی کا اپنی طرز کا الزام لگاتی اور اُسی کے مطابق حل چاہتی ہے۔
 1993ءکی طرح پورا انتخابی عمل فوج کی براہ راست نگرانی میں ہوتا تو کہیں سے کوئی شکایت نہ ملتی اور یقیناً معمولی رد و بدل کے ساتھ نتائج وہی ہوتے جو سامنے آ چکے ہیں۔ الیکشن کمشن نے 14 ٹربیونل تشکیل دے دئیے ہیں۔ وہ متاثرین کی تشفی نہ کر سکے تو سپریم کورٹ یقیناً تسلی کرا دے گی۔ ہر پارٹی کی ثبوت کے تناظر میں شکایت دور ہو گئی تو بھی کسی پارٹی کے مینڈیٹ میں غیر معمولی تبدیلی نہیں آنے کی امید تو نہیں تاہم شکایت کنندہ مطمئن ضرور ہو جائیگا۔ جس قسم کے دھاندلی کے الزامات سامنے آئے ان کو بے ضابطگی کہا جائے تو بہتر ہے۔ مجموعی طور پر بے ضابطگیوں میں کسی ایک پارٹی کو ملوث قرار نہیں دیا گیا۔ ایسے الزامات کے باوجود بھی سیاسی پارٹیوں میں برداشت، تحمل اور رواداری کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنی شکست تسلیم کی اور زرداری صاحب نے سب سے بڑی پارٹی کے قائد میاں نواز شریف کو مبارکباد دی۔ نواز شریف عیادت کیلئے عمران خان سے ملے، دونوں نے ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم اور مبارکبادوں کا تبادلہ کیا۔ اس ملاقات سے نفرتوں کا سفر محبتوں میں بدلتا دکھائی دیتاہے۔ سیاسی اور نظریاتی اختلاف کا مطلب نفرت، عداوت، عناد اور دشمنی ہرگز نہیں۔ مولانا فضل الرحمن رواداری کے سب سے بڑے معلم ،مبلغ اور مدرس ہیں لیکن حضرت صاحب کو پی ٹی آئی کی کامیابی ہضم نہیں ہو رہی، فرماتے ہیں تحریک انصاف کا مینڈیٹ قبول نہیں۔ کیوں قبول نہیں؟ اسکی وضاحت نہیں فرمائی۔ حضرت بڑے ہو گئے ہیں ،اپوزیشن میں بھی بیٹھنے کی عادت ڈالیں۔ خیبر پی کے اور مرکز میں نہیں تو بلوچستان میں کچھ حصہ مل سکتا ہے۔ ملک میں انقلاب کی بنیاد پڑ چکی ہے جو انکے صوبے سے ہی اُٹھتا دکھائی دیتا ہے اسکے حریف بننے کے بجائے نقیب بننے کی کوشش کریں۔
خیبر پی کے میں ن لیگ کی تائید سے عمران خان کی پی ٹی آئی دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو ملا کر حکومت بنا رہی ہے ۔ اگر یہ حکومت بن گئی تو پورے ملک کو پشاور سے انقلاب، تبدیلی اور نئے پاکستان کی نوید مل سکتی ہے۔ یوتھ مایوس نہ ہو نواز شریف پاکستان بدلیں گے تو عمران خان نیا پاکستان بنانے میں کامیاب ہو جائینگے۔ عمران خان مرکز میں آتے تو ان کیلئے اپنے ایجنڈے کی تکمیل ناممکن نہیں تو مشکل ضروری ہوتی۔ خیبر پی کے ایک چھوٹا صوبہ ہے۔ اسکے حالات کو سنوارنااور دہشتگردی کی آگ کو بجھانا مشکل نہیں ۔ عمران خان بڑے ”ہاﺅسز “کو ختم کرنے کا اعلان کرتے رہے ہیں۔ خیبر پی کے کو وہ ٹیسٹ کیس بنائیں۔
گورنر ہاﺅس اور وزیر اعلیٰ ہاﺅس کو 10 ڈاﺅننگ سٹریٹ کے سے رقبے تک محدود کر دیں۔ گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاﺅس کیلئے زیادہ سے زیادہ ایک کنال کا گھر کافی رہے گا۔ایسے گھر میں رہیں گے تو 6فٹ کے گھر میں رہنے میں آسانی بھی رہے گی ۔ آئی جی، ایس ایس پی، ایس پی جیسے عہدیدار تھانوں میں بیٹھیں ۔ وزیر اعلیٰ ،گورنر ہزار سی سی کی گاڑی استعمال کر ینگے تو کوئی بُلٹ پروف گاڑی کی ڈیمانڈ نہیں کریگا۔ تھانہ اور پٹواری کلچربدلنا انکے ایجنڈے کا حصہ ہے ۔ وہ ایسا ایک چھوٹے صوبے میں آسانی سے کر سکتے ہیں۔ جب ایک صوبے میں ایسی انقلابی تبدیلی آئیگی تو قومی و عالمی میڈیا اسکی تحسین اور تشہیر کئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ پھر ایسے اقدامات کی تقلید دوسرے صوبوں کی مجبوری ہو گی۔ اگر مرکزاور صوبے ایسے اقدامات کو فالو نہیں کرتے تو وہ اسی صف میں کھڑے ہونگے جس میں آج پی پی پی ، اے این پی اور کیو لیگ کھڑی ہے ۔ عمران خان صوبے میں ترقی و خوشحالی کی یقیناً لہر دوڑا سکتے ہیں جس کی روشنی پورے ملک کو بقعہ نور بنا دیگی ۔ امن و امان کے قیام کیلئے نواز شریف اور عمران خان کی سوچ یکساں ہے عسکریت پسند انکی بات بھی سُنتے ہیں۔
 کالا باغ ڈیم پر دونوں متفق ہیںاسکے آغاز اور تکمیل سے تاریکیوں سے سائے ہمیشہ کیلئے چھٹ جائینگے ۔ امریکہ میں موجود کچھ پاکستانیوں نے خیبر پی کے میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس صوبے کے پہاڑوں میں قدرت کے قیمتی خزانے پنہاں ہیں۔ وسائل کی کمی نہیں۔ ان کو قومی مفاد کیلئے استعمال کیا جائیگا تو یقیناً خیبر پی کے میں خوشحالی و ترقی چلنے والی بادِ صبا کی ٹھنڈک اور مہک وطن کے گوشے گوشے میں محسوس ہو گی ۔ اہلیت ،خلوص اور نیک نیتی صوبے سوئٹزر لینڈ بنا سکتی ہے۔ خیبر پی کے کو سیاحو ں کیلئے پُر کشش بنا کر پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے ۔ عمران خان ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو کیا کوئی کہے گا کہ پی ٹی آئی ہاری ہے؟ پی ٹی آئی کی خیبر پی کے میں حکومت بننا پورے ملک کیلئے انقلاب کی بنیاد اور نوید نہیں تو کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن