پاکستان میں وقتِ مقررہ پر کسی بڑے ہنگامے یا خون خرابے کے بغیرالیکشن کا ہوجانا ایک بہت خوش آئند بات ہے ۔جو کسی ایک فرد یا گروہ کا کارنامہ نہیں بلکہ ذاتی اور ملکی سطح پر تمام لوگوں کی اجتماعی کا وشوںکا نتیجہ ہے‘جس میں آرمی ، عدلیہ اسٹبیلشمنٹ، میڈیا ، سیاست دان اور عوام ،کسی کا تھوڑا کسی کا ذیادہ مگر سب کا ایک کردار ہے ۔ سب سے پہلے جمہوریت کے عمل کی طرف پاکستانی قوم کو کامیابی سے داخل ہونے پر مبارکباد۔ دوسری بات کرتے ہیں الیکشن میں ہونیوالی دھاندلیوں کی ۔ یہ پاکستانی کلچر کا ایک حصہ ہیں ،سب لوگوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ یہ سب جاتے جاتے ہی جاتا ہے ۔اسی لئے سب سیاست دانوں نے الیکشن کمیشن کے فخرو بھائی کو تسلیم کیا اورکرپٹ امیدواروں کو الیکشن کمیشن سے پاس ہو کر نکلتے بھی دیکھا مگر پھر بھی خاموش رہے۔احتجاج کرنا ہوتا تو وہیں سے شروع ہوجانا چاہئے تھا، مگر الیکشن کی مہم چلتی رہی حالانکہ انہیں یہ بھی پتہ ہوگا کہ پاکستانی سوسائٹی میں ہر فرد کی ایک قیمت ہے چاہے وہ ووٹر ہو یا پریذائیڈنگ آفیسر۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جسے انواع و اقسام کے بہت سے سانپ ڈس چکے ہیں ، زہر اندر تک پھیل چکا ہے ۔ لوگ اپنے منہ سے زہر چوس چوس کر باہر تھوکتے رہیں گے تب ہی کہ ایک دن ایسا بھی آئے کہ یہ ملک مکمل طور پر زہر سے پاک ہوجائے ۔ان الیکشن کا منعقد ہو جانا زہر باہر تھوکنے کا آغاز ہے ۔ بار بار مقررہ وقت پر الیکشن ہوتے رہیں تو نہ ووٹ دینے والے نادان رہیں گے اور نہ ووٹ لینے والے لاپرواہی برت سکیں گے ۔ یہ لازمی نہیں ہے کہ الیکشن کے نتیجے میں صاف شفاف حکومت آپکے سامنے آکھڑی ہوگی ۔بہت سے ممالک میں الیکشن مقررہ وقت پر ہوتے ہیں ، اداروں میں ایک نظام برقراررہتا ہے اور جوابدہ ہونے کا خوف کرپشن کو اس حد تک اژدھا نہیں بننے دیتا جو اداروں کو ہی نگلنا شروع کر دے اور ملک قومی اور بین الاقومی سطح پر بے نام و نشان ہوجائے۔ان الیکشن میں صوبہ پنجاب برداری اور ذات پات کے نظام سے نہیں نکل سکا جہاںلوگ ذات سے باہر نہ رشتہ دیتے ہیں نہ ووٹ ۔ جس پارٹی نے اس نظام کو سمجھ کر الیکشن کی ٹکٹیں تقسیم کیں اس پارٹی کو واضح اکثریت مل گئی ،گو کہ اکثریت کیساتھ واضح کا لفظ لگانے کیلئے بلاوجہ،غیر ضروری دھاندلی بھی کی گئی ۔ سند ھ میں بھٹو کا رومانس سر چڑھ کر بولا ،بھٹوز نے نہ پیٹ بھرنے کو روٹی دی،نہ سر چھپانے کو چھت اورنہ ہی جسم ڈھانپنے کو کپڑا مگر ووٹ بھٹو کی امانت۔کراچی میں ایم کیو ایم کی لسانی سیاست برقرار رہی ۔ بلوچستان میںوہی سردار جو کبھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوکر اور کبھی نون لیگ میں شامل ہوکر حکومت کا حصہ بنتے ہیں ، آگے نظر آرہے ہیں،دوسروں کے نتائج روک دئے گئے۔ پختون خواہ میں لوگوں نے پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نون ، ایم ایم اے ،اے این پی سب کو ایک ایک دفعہ ہی خدمت کا موقعہ دیا ،ٹھیک طرح سے خدمت گذاری نہ ہوئی تو اب کی بار انہوں نے یہ اعزاز پی ٹی آئی کو بخشا ہے۔ جہاں پی ٹی آئی کو پہلی دفعہ حکومت کرنے کا موقعہ ملے گا ہ،انتخابات کی تاریخ دیکھ کر یہ پتہ چل جاتا ہے کہ پختوان نتائج پر یقین رکھنے والے باعمل لوگ ہیں ۔ الیکشن سے پہلے جب پی ٹی آئی نے پاکستان میں انقلاب یا تبدیلی کی بات کی تب میرا سوال تھا کیا آپ پاکستان سے برداری ، سرداری ، جاگیرداری نظام یا فرقہ پرستی یا لسانی یا شخصی عقیدت کی سیاست وہ تبدیل کر سکیں گے ؟تو جواب ملتا تھا جنون سب کچھ کروا دیگا ۔ اس الیکشن نے جواب دیدیا ہے کہ جنون پیٹ یا عقیدت سے بڑا نہیں ہے۔ ا س جنون نے لوگوں کو پاکستانی معاشرے کی اصل حقیقت سے اٹھا کر ایک خوابوں خیالوں والی دنیا میں داخل کر دیا تھا۔ ہاں! پڑھے لکھے پاکستان سے مایوس لوگوں کو سیاست میں لانے کا سہر ا سوائے عمران خان کے او رکسی کو نہیں جاتا ۔عمران خان نے پاکستانی سیاست میںبہت کچھ تبدیل کیا ہے مگروہ کیک کے اوپر ڈالنے والے ہلکے پھلکے سجاوٹ کا سامان ہیں ، اندر تک کیک کیسے ٹھیک سے پکانا ہے ، اسکی پہلے ترکیب اور پھر تدبیر کرنی ہوگی ، ایک بار نہیں بار بار کرنی ہوگی ۔جمہوریت سب سیاسی جماعتوں کیلئے ہر روز ایک نیا سبق ، ایک نیا سورج لاتی ہے ۔ جمہوریت نہ بلے سے مارا گیا ایک زور دار چھکا ہے جو باﺅ نڈری پار کر جائے اور نہ شیر کی طرح ایک ہی جست میں شکار کو جاپکڑے اور چیر پھاڑ کے رکھ دے۔ یہ چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ طے کیا جانے والا ایک بہت لمبا سفر ہے ۔ پی ٹی آئی پنجاب میں اپنی غلطیوں سے ہاری یا نون کی تجربہ کار منصوبہ بندی اور دھاندلی کا شکار ہوئی ، یہ بحث اب لاحاصل ہے ۔ایک کامیاب جمہوری عمل کے نتیجے میں مسلم لیگ نون کو حکومت بنانے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے ۔نون کو درپیش چیلنجز بہت سے ہیں مگر سب سے پہلا، تمام صوبوں میں مختلف جماعتوں کی نمائندگی ایک طرف تو جمہوریت کا حُسن ہے اور دوسری طرف ایک چیلنج بھی ہے ۔وفاق کو باقی سب صوبوں کو بھی ساتھ لیکر چلنا ہوگا بالخصوص پنجاب کے علاوہ باقی تینوں صوبے جہاں مختلف سیاسی پارٹیوں کی جیت ہوئی ہے ۔اور جہاں نون کو بہت مدبر ہوکر سب چیزوں پر نظر رکھنا ہوگی وہیں عوام کو بھی اس نازک وقت میں بہت سوچ سمجھ کر برتاﺅ کرنا ہوگا ۔ اس وقت سب ایک تنے ہوئے رسے پر چل رہے ہیں ۔ یاد رہے اس وقت پاکستان کا اتحاد اور استحکام سب سے ضروری ہے۔مسلم لیگ نون کو نام کا نہیں کام کا خادمِ اعلی بن کر دکھانا ہوگا ۔ملک کی بنیاد مستحکم معیشت ہوتی ہے باقی عدلیہ ،پولیس، فوج، سول ادارے،یہ سب super structureکہلاتی ہیں جن کا انحصار معشیت پر ہوتا ہے ۔ اب ملک بزنس مین کلاس کے ہاتھوں میں ہے ، عوام نظر رکھے کہ سیاست میں خدمت اپنے بزنس کی ہورہی ہے یا اپنے بزنس سے غریب عوام کی خدمت ہورہی ہے ۔اور اگر سیاست کو اپنے بزنس کو فائدہ پہنچانے کیلئے استعمال کیا گیا تو لوگو!ایک موٹر وے، ایک میٹرو اور چند دانش سکولز کے ہاتھوں بار بار نہ بک جانا۔ بنیادی تعمیراتی ترقیاتی کام جب شروع ہونگے تو عوام کو نظر رکھنی ہوگی کہ سب خام مال شریف ملز سے تو نہیں جارہا ۔کہیں سے سستا مال ملتا ہو جس سے اربوں کی بچت ہوسکتی ہوتو خریداری وہاں سے ہونی چاہیئے نہ کہ اپنا مہنگا مال حکومتی اداروں کے ذریعے عوام کو بیچ کر کھربوں کا منافع جیبوں میں ڈالا جائے۔ اب تو شریف خاندان کے پاس اتنی دولت ہے کہ پسماندہ علاقوں میں اپنے ذاتی بزنس سے غریب عوام کیلئے سکول اور،ہسپتال بنا سکتے ہیں ۔ زرداری کی چوری اور سینہ زوری دکھائی پڑنے والی چیز تھی ، راجہ رینٹل بھی سب کی نگاہوں میں ہیں اور فہمیدہ مرزا بھی ۔اگر تو پاکستان کے بنکوں کے منہ شریف انڈسڑیز کیلئے قرضوں کیلئے نہیں کھلتے ، اگر تو تعمیراتی سامان حکومت کاپیسہ بچا کر کم ریٹ والے بولی دینے والے کو دیا جائے ، اگر ان اشیاءکی جعلی ڈیمانڈ نہ پیدا کی جائے جو شریف بردارن کی فیکٹریوں میں بنتی ہے تو آپ سمجھ جائیے گا کہ یہ خاندان آپکی خدمت کرنے کو سیاست میں آیا ہے ۔ سیاست ذاتی بزنس کو بڑھاوا دینے کئے لئے نہیں استعمال کی جارہی۔ اگلے پانچ سال بعد پھر انہی کو ووٹ دیجئے گا لیکن اگر یہ سب نہ ہوا تو آپ کا ووٹ آپکی حرمت ہے اسکی قدر کریں ، آپکی عقل ہے اسے بار بار مینٹل ہستپال میں ہونیوالے تجربے کی نذر نہ کریں ۔ پاکستان کو بچانا آپ کی ذمہ داری ہے اس لئے مستقبل میں اپنے ووٹ کو ایک خاندان کے ذاتی بزنس کو بڑھانے کیلئے استعمال نہ کریںاورجمہوریت کو چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے دیں ۔یہ ایک لمبی ریس ہے ۔تبدیلی اسی کے ذریعے آتے آتے آئیگی۔