میاں شہباز شریف نے الیکشن میں کامیابی کے بعد عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ” پہلے وہ عوام کے خادم تھے مگر اب ان کے نوکر ہیں“۔ خادم اور نوکر کی سروس ایک جیسی ہوتی ہے مگر خطاب میں فرق ہے۔ خادم کے لفظ میں انکساری ہے اور نوکر میں ہتک کا عنصرمحسوس ہوتا ہے۔ نوکر کی بجائے ”ملازم“ زیادہ مہذب لفظ ہے۔اکثر لوگ اپنے ملازم کو جب نوکر کہہ کر پکارتے ہیں تو اس میں کبر کی بو ُ آتی ہے۔ میاں شہباز شریف پنجاب کے خادم اعلیٰ بننے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ ان کا پیدائشی حق ہے لہٰذا اس اعزاز کو ”نوکر“ کہہ کر منہ کا مزہ مت خراب کریں۔ عوام کو ٹائٹل سے نہیں کارکردگی سے غرض ہے۔ خادم اعلیٰ کی خدمات نے پارٹی کو جتوا دیا جبکہ میاں نواز شریف نے زرداری حکومت کو پانچ سال کی مہلت دے کر بری طرح ایکسپوز کر دیا۔ اگر مدت پوری نہ ہوتی تو زرداری پارٹی بھی وہی شور مچاتی جو نواز شریف مچاتے چلے آرہے ہیں کہ ”ان کی حکومت کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی ورنہ انہوں نے ابھی بہت کام کرنا تھا“۔ زرداری ٹولے کے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہا۔ اس نے بے دریغ کھایا ہے، اب اسے آرام کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کی مہم کو بطور آلہ کار استعمال کرتے رہے مگر عوام بھی بہت سیانے نکلے ۔ نصف ووٹ حُب نواز شریف میں اور نصف ووٹ بغض زرداری میںدے دیئے۔ اب تحریک انصاف کی باری ہے کہ وہ اپنی حکمت عملی اور سیاسی بصیرت کو آنے والے حکمرانورں کو سیدھا رکھنے کیلئے استعمال کرے تاکہ اس بار عوامی ہمدردی کا جواز ختم ہو جائے۔ اب اس ملک میں کوئی حکومت ایسی نہ ہو جسے یہ کہنے کا موقع ملے کہ ہمیں مدت پوری نہیں کرنے دی گئی ورنہ ہم نے بڑے تیر مارنے تھے۔ نواز شریف کو ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے پانچ سال دیئے جا رہے ہیںاور بظاہر میاں صاحب ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے پر عزم بھی دکھائی دیتے ہیں۔ نواز شریف کا عمران خان کی عیادت ایک قابل تحسین قدم ہے اور یقینََا عمران خان نے بھی اس قد م کو خوش آمدید کہا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اس سے پہلے جب میاں شہباز شریف ان کی عیادت کے لئے ہسپتال گئے، عمران خان نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ رحمان ملک سے ملاقات کی۔ عوامی حلقوں میںعمران خان کے شہباز شریف سے ملاقات سے انکار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا مگر رحمان ملک سے ملاقات پر شدید رد عمل سامنے آیا حتیٰ کہ اکثر کنفیوز ووٹرز نے بلّے پر ٹھپہ لگانے کا ارادہ بدل دیا۔ تحریک انصاف سے اس کے علاوہ بھی کئی چھوٹی بڑی کوتاہیاں سرزد ہوئیں۔ ایک کامیاب سیاستدان کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کو فراخدلی کے ساتھ قبول کرے اور ان کا دفاع کرنے کی بجائے اپنی اصلاح کرے۔قوم عمران خان سے پیار کرتی ہے اور انہیں ایک سیاسی لیڈر کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف میں بیشتر لوگ مسلم لیگ سے ناراض ہیں اور عمران خان کو شریف برادران کے خلاف زہر اگلنے پر اکساتے رہے ہیں۔ اس طرز سیاست نے عمران خان کو فائدہ پہنچانے کی بجائے بے حد نقصان پہنچایا۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی طرز سیاست اب بوسیدہ ہو چکی ہے۔ لوگ اب ٹھوس اور عملی بات سننا چاہتے ہیں۔پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے لہٰذا اس کے سیاستدانوں کو بھی اپنے رویئے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی مخالفت کی حدود متعین ہونی چاہیں اور ملکی مفاد کو اولین ترجیح دی جائے۔ امریکہ میں ہیلری کلنٹن اور براک اوباما میں انتخابی مقابلہ حالیہ مثال ہے۔ دونوں کا تعلق ایک ہی سیاسی پارٹی سے ہے مگر صدارتی امیدوار کی دوڑ میں دونوں صف اول کے حریف تھے۔ ایک دوسرے کے خلاف زبردست مہم چلائی مگر جب ہیلری کلنٹن ہار گئیں تو انہوں نے براک اوباما کی بھر پور حمایت کی۔ نوا ز شریف کا عمران خان کے ساتھ دوستانہ ماحول میں عیادت اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی پیش رفت کے بعد قومی ہیرو بستر سے اٹھے گا اور ایک نئے پاکستان کے لئے حکومت کا بازو بنے گا۔ عوام نے پانچ سال پہلے مشرف ٹولے کو نکال باہر کیا تھا اور پانچ سال بعد زرداری پارٹی کو اٹھا با ہر پھینکا ہے۔ ہمارا پہلے روز سے ایک ہی موقف ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ کا نظریہ اور عزائم ایک ہیں لہٰذا دونوں مل کر پاکستان کو ایک مضبوط و مستحکم ریاست بنائیں۔ عمران خان ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے نجات دلا سکتے ہیں۔ الیکشن کے دوران دیکھی جانے والی تبدیلی کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے کہ انہوں نے پڑھے لکھے طبقے کو ووٹ کی لمبی قطاروں میں کھڑا کر دیا۔ عمران خان کا ڈنڈا سر پر رہے گا تو حکومت بہتر کارکردگی پیش کر سکے گی۔ پنجابی محاورہ ہے کہ ”مارے توں ترایا چنگا“ مارنے سے ڈرانا زیادہ موثر ہوتا ہے۔ وزارت عظمیٰ کے بڑے امتحان سے پہلے صوبائی حکومت کی چھوٹی آزمائش سے گزرنا ضروری ہوتا ہے۔ نواز شریف کی کامیابی کے پیچھے شہباز شریف کی شب و روز کی محنت اور کارکردگی کا اہم کردار ہے۔ جو پہلے خادم تھا، آج خود کو ”نوکر“ کہہ رہا ہے۔ خادم سے نوکر بننے کے لئے پانچ سال مزدوری کی ہے۔!!
”خادم “ سے ”نوکر“....!“
May 16, 2013