وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے!

مکرمی ! ڈاکٹر طاہر القادری کے ایک مرید نے میرے کالم ’’کیا انقلابی ایسے ہوتے ہیں‘‘ پر اعتراض کیا ہے۔ اگر وہ ڈاکٹر طاہر القادری کی عقیدت سے مغلوب نہ ہو کر اس کالم کا مطالعہ کرتے تو نفسِ مضمون سے بہرہ ور ہو جاتے۔ اس دنیا میں انقلابات کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو سب سے عظیم تر انقلاب جس کے اثرات و ثمرات قیامت تک اس دنیا کیلئے فیض رسانی کا ذریعہ رہیں گے وہ مکہ کی پہاڑیوں سے بلند ہوا۔ اس انقلاب کے قائد اللہ تعالیٰ کے آخری نبیؐ تھے۔ یہ انقلاب خالق ارض و سما کے احکامات کو عملی شکل دینے کیلئے تھا جسے اسلامی انقلاب کا نام دیا جاتا ہے۔ اس دنیا میں اس انقلاب کے احیاء کیلئے جو جدوجہد کرے گا اس کیلئے رول ماڈل سرورؐ کائنات کی ذاتِ اقدس ہے۔ انقلاب کی ایک قسم جسے دنیاوی انقلابات کا نام دیا جا سکتا ہے ان کے قائدین میں ایک سرکردہ نام مائوزے تنگ کا ہے اور یہی اس انقلاب کا رول ماڈل ہے۔ لہٰذا اس دنیا میں جسے انقلاب کی جدوجہد کرنی ہو گی اس کے سامنے یہ دو رول ماڈلز ہو سکتے ہیں۔ ہاں انقلابات کی نوعیت الگ الگ ہو گی۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ایک انقلاب اللہ سبحانہ تعالیٰ کے احکام کے تابع ہے اور اس انقلاب کا رول ماڈل حضورؐ نبی کریم کی ذات اقدس ہے۔ دوسری نوعیت کا انقلاب جو خالصتاً دنیاوی مقاصد کیلئے ہے اس کا رول ماڈل مائوزے تنگ ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے عقیدت مند خود جائزہ لے سکتے ہیں کہ ان کی زندگی اور اعمال و کردار میں کس رول ماڈل کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ بصیرت پر اندھی عقیدت غالب آ جائے تو انسان کیلئے صحیح فیصلہ مشکل ہو جاتا ہے۔ خود ساختہ قائد انقلاب ڈاکٹر طاہر القادری میرے آقاؐ و مولیٰ کا رول ماڈل اپنا لیں میں ان کے ادنیٰ کارکن کے طور پر حاضر ہوں۔ طاہر القاری کے پیروکار سے یہی کہا جا سکتا ہے۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا       وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
(اسرار بخاری ۔ براہ راست)

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...