وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کی صدارت میں کراچی میں مُنعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں سیاسی اور عسکری قیادت میںایک بار پھِر’’ اتفاق رائے‘‘ ہُوا کہ’’ کراچی میں جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف آپریشن جاری رہے گا‘‘۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا کہ’’ وزیرِ اعظم کی تجاویز کے مطابق ہم آگے بڑھیں گے۔فوج کا خلوص 100 فیصد ہے‘‘۔گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت عباد خان کے ماتحت ڈی جی رینجرز نے کہا کہ’’آپریشن کے لئے فوج کی ضرورت نہیں۔ ہم حالات پر قابو پالیں گے‘‘۔اجلاس میں موجودسابق صدر آصف زرداری نے کہا کہ’’ قیامِ امن کے لئے ہم ہر حکومتی اقدام کی حمایت کریں گے‘‘۔ جماعت ِاسلامی کے حافظ نعیم اُلرحمن نے مطالبہ کِیا کہ’’ ڈاکٹر عشرت عباد خان کو اُن کے عہدے سے برطرف کِیا جائے‘‘۔
عجیب بات ہے کہ کسی نے وزیرِ اعلیٰ کی برطرفی کا مطالبہ نہیں کِیا البتہ وزیرِ اعظم نواز شریف نے سندھ میں آپریشن کے کیپٹن سیّد قائم علی شاہ سے کہا کہ’’ شاہ صاحب!ٹیسٹ میچ نہ کھیلیں۔ ٹی20 کھیلیں!‘‘ اور فوراً ہی وزیرِ اعظم نے جناب ِزرداری سے مخاطب ہوتے ہُوئے کہا کہ’’ آپ سیّد قائم علی شاہ صاحب کو"Energy Drink" پِلائیں!‘‘۔وزیرِ اعظم کی اِس فرمائش یا تجویز کا زرداری صاحب نے کیا جواب دِیا؟ تادمِ تحریر اِس کی اطلاع نہیں ہے۔ جنابِ وزیرِ اعظم اور جنابِ آصف زرداری میں چونکہ برطانیہ کے غیر تحریری آئین کے طرح’’ مِیثاقِ تسلسلِ جمہوریت‘‘ ہو چُکا ہے اور موصوف ایم کیو ایم سے سیاسی اخلاقیات نباہنے کا وعدہ بھی کر چُکے ہیں اِس لئے فی الحال تو گورنر صاحب اور جنابِ وزیرِ اعلیٰ کی برطرفی کا دُوردُور تک امکان نہیں ہے۔ دونوں صاحبان بدستور’’ سیاسی چھتریاں‘‘ استعمال کر رہے ہیں۔ دراصل گورنر صاحب اورجنابِ وزیرِ اعلیٰ کا کوئی بھی پیارا ٹارگٹ کلِنگ بھتّا خوری اور اغوا برائے تاوان کی زد میں نہیں آیا۔ پنجاب کی ایک الہڑ مٹیار نے اپنے محبوب سے کہا تھا ؎
’’ سُوہے وے چِیرے والیا ، مَیں کہنی آن
کر چھتری دی چھاں ، مَیں چھانویں بہنی آں ‘‘
یعنی اے سُرخ پگڑی باندھنے والے میرے محبوب ! مَیں تُم سے کہہ رہی ہوں کہ میرے سر پر اپنی چھتری تان دے تاکہ مَیں اُس کی چھائوں میں بیٹھ سکوں۔ بادشاہ/ راجا کے سر پر تانی ہُوئی چھتری چونکہ بہت بڑی ہوتی ہے اِس لئے اُسے’’ چھتر‘‘ کہتے ہیں۔ وزیرِ اعظم نواز شریف اِس بار اقتدار میں آکر جناب آصف زرداری اور جناب الطاف حسین سے وہی سلوک کر رہے ہیں جو سکندرِ اعظم یونانی نے پنجاب کے مہاراجا پورس کو جنگ میں ہرا کر اُس سے کِیا تھا ۔ اِس لحاظ سے جناب ِزرداری اور الطاف حسین صاحب اپنی اپنی جگہ’’چھتر پتی راجا‘‘ ہیں اِس لئے اُن کی چھتر چھایا میں جو کوئی بھی ہو اُسے تو پہلے ہی امان مِل چُکی ہے۔ جنابِ زرداری کا مؤقف ہے کہ’’آپریشن کے لئے پولیس سے ہی کام لِیا جائے اور فوج کو زحمت نہ دی جائے‘‘۔ بڑے لوگوں کو’’خیالِ خاطرِ احباب‘‘ تو رکھنا ہی پڑھتا ہے؟
ٹیسٹ میچ چار پانچ دِن تک کھیلا جاتا ہے اور ٹی20 دو تین گھنٹوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ ٹی20 کھیلنے والوں خاص طورپر ٹیم کے کیپٹن میں اگر"Energy" (توانائی)کم ہو تو ٹیم کا ہارنا یقینی ہوجاتا ہے۔13 ِمئی 2013 ء کے عام انتخابات کے بعد اگر جناب آصف زرداری اپنے مُنہ بولے بھائی جواں سال اور جواں عزم جناب مُظّفر اویس ٹپّی کو وزیرِ اعلیٰ سندھ بنا دیتے تو وہ اپنے نام کے حوالے سے’’ ٹَپدے ٹَپدے‘‘(ٹاپتے ٹاپتے)جرائم پیشہ گروہوں سے ہرٹی20 جیت کر خود کو’’ مُظّفر‘‘(فاتح) ثابت کر دیتے۔ سیّد قائم علی شاہ کی عُمر کا اندازہ لگانے کے لئے تو کہا جاتا ہے کہ’’ بس یہ سمجھ لیں کہ انہوں نے محمد بن قاسم کے ساتھ سندھ کو اپنے قدومِ میمنت لزوم سے بابرکت کِیا تھا‘‘۔
صِرف جناب آصف زرداری ہی نہیں بلکہ وزیرِ اعظم نواز شریف بھی سیّد قائم علی شاہ کا بہت احترام کرتے ہیں۔ اِسی لئے انہوں نے شاہ صاحب کے لئے زرداری صاحب سے"Energy Drink" (قوّت بخش مشرُوب) کا بندوبست کرنے کی سفارش کی ہے۔قوّت بخش پائوڈر اور معجُون کوکُشتہ‘‘ کہتے ہیں۔ جنابِ وزیرِ اعظم کو علِم ہے کہ شاہ صاحب ان کی حدِّت برداشت نہیں کر سکیں گے، اِسی لئی انہوں نے شاہ صاحب کو’’ کُشتۂ فولاد‘‘کھلانے کی سفارش نہیں کی۔اُس مقام کو جہاں مقتولوں کی لاشیں پڑی ہوں’’ کُشتوں کا کھیت‘‘کہتے ہیں۔اب صُورت یہ ہے کہ کراچی کے صِرف’’ لالُو کھیت‘‘ کو ہی نہیں بلکہ ہر مقام کوکُشتوں کا کھیت بنا دیا گیا ہے۔کراچی اور وزیرِ اعلیٰ سندھ سیّد قائم علی شاہ کے بارے میں سالہا سال گُزرے حضرتِ راسخ نے کہا تھا ؎
’’ کُشتوں کے تیرے کھیت پڑے ہیں جہاں تہاں
بعدِ شبابِ ناز کی جاگِیر بڑھ گئی ! ‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جناب ِ زرداری عروقِ سیّد قائم علی شاہ میں خونِ زندگی دوڑانے کے لئے پاکستان کے کسی حکیمِ حاذقؔ کی تیار کردہ"Energy Drink" کا بندوبست کریں گے؟یا حکومتِ سندھ کے خرچ پر ماہر ڈاکٹروں کا کوئی وفد بیرون مُلک بھجوائیں گے؟ مَیں1991 ء میں’’ نوائے وقت‘‘کے کالم نویس کی حیثیت سے صحافیوں کی گیارہ رُکنی "Eleven" (وفد)کے رُکن کی حیثیت سے پہلی مرتبہ شمالی کوریا اور عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر گیا تو مجھ سے مولانا کوثر نیازی (مرحوم) سمیت کئی دوستوں نے اِن دونوںملکوں میں پیدا ہونے والی قوّت بخش جڑی بوٹی"Ginseng" کی فرمائش کی تھی۔ مَیں لے بھی آیا تھا۔ بھٹو صاحب کے دَور کی پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض مُخلص کارکنوں‘‘ کا خیال تھا کہ’’شمالی کوریا کے’’ قائد ِ انقلاب‘‘کامریڈکِم اِل سُنگ سے جنابِ بھٹوکی پُختہ دوستی کی دو وجوہات تھیں۔ایک سوشلزم اور دوسری"Ginseng" ۔
ہندوئوں کی مُقدّس کتاب’’ رامائن‘‘کے مطابق’’وِشنُودیوتا ‘‘کے اوتار’’شری رام‘‘ نے اپنی بیوی ’’سِیتا‘‘ کولنکا کے راجا ’’راون‘‘کے قبضے سے چُھڑانے کے لئے جب لنکا پر حملہ کِیا تو راون نے ایک ایسا تِیر مارا کہ شری رام کا چھوٹا بھائی ’’ لکشمن‘‘ بے ہوش ہو کر قریب اُلمرگ ہو گیا۔ شری رام کے حُکم پر اُن کا بھگت ’’ ہنو مان‘‘(جِس نے اپنی بہت ہی لمبی پُونچھ سے سارے لنکا میں آگ لگا دی تھی) بھارت کے کسی پہاڑ سے’’ زندگی بخش‘‘ بوٹی’’ سنجِیونی‘‘لے آیا۔جب اُس بوٹی کا عرق لکشمن کو پلایا گیا تو وہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو گیا تھا۔ اب فیصلہ جناب ِ زرداری کو کرنا ہے کہ وہ سیّد قائم علی شاہ کی’’"Fitness' کے لئے"Ginseng" منگواتے ہیں یا’’امن کی آشا‘‘ پروگرام کے تحت’’ سنجِیونی؟‘‘ نواز شریف صاحب نے توبڑے خلوص سے سیّد قائم علی شاہ کے لئے بغیر فیس لئے نُسخہ تجویز کردِیا ہے کہ’’انرجی ڈرِنک کھپے!‘‘
’’ انرجی ڈرِنک کھپے ! ‘‘
May 16, 2014