حفیظ تائب عشق رسولؐ کا ایک چراغ اپنی آنکھوں میں جلا کے پھرتے تھے۔ انہوں نے رسول کریمؐ کی زندگی کو ہماری زندگیوں سے ہم آہنگ کرنے کی تمنا کو دلوں میں زندہ کیا۔ اپنے زمانے کو انؐ کے زمانے سے مربوط کرنے کی خواہش کی اور کوشش کی۔ انہوں نے اس انداز میں نعت لکھی جو اس زمانے میں لکھی جانا چاہئے تھی۔ انہوں نے نعت محمدؐ کو اپنے زمانے کا ہمراز بنایا انہیں فوتیدگی کے بعد جس نے بھی مجدد نعت کا خطاب دیا برحق اور برمحل ہے۔ انہوں نے اس فن کی تجدید کی۔ مجدد الف ثانی ایک اور انداز میں مجدد تھے اور مجدد سو سال کے لئے ہوتا ہے۔
نعت کے حوالے سے جو عاجزانہ معرکہ آرائی ہے، وہ صرف حفیظ تائب کے فن اور عشق میں دکھائی دیتی ہے۔
ڈاکٹر خورشید رضوی جیسے اہل دل اور بڑے دانشور شاعر اور ادیب کہتے ہیں کہ اردو غزل میں بھی ایک مقام حفیظ تائب کا ہے مگر ان کی نسبتوں کا کمال دیکھیں کہ جب انہوں نے نعت کہی تو پھر غزل نہیں کہی۔ اسی ادائے دلبرانہ اور عاشقانہ نے انہیں ایک خاص رتبہ عطا کر دیا اور خدائے محمدؐ نے ان پر خصوصی کرم فرمایا۔ وہ نعت سے قربت رکھنے والوں کے دلوں کے قریب ہوئے جبکہ عشق رسولؐ کی کیفیتوں میں ڈوبے ہوئے لوگوں کا ساحل مراد بن گئے۔ میں نے اپنے زمانے میں کسی کے ساتھ ایسی محبت کرتے لوگوں کو نہیں دیکھا جو محبت ان کی آنکھوں سے جھلکتی اور چھلکتی تھی اس کی مثال اس زمانے میں نہیں ملتی۔ یہی بات دنیا کے سب سے بڑے محبوب انسان سب سے بڑے رسول عالمؐ حضرت محمدؐ میں تھی۔ نہ ان جیسی محبت کسی نے انسانوں سے کی نہ انسانوں نے کسی کے ساتھ کی۔ میں نے مسلمانوں کی بجائے انسانوں کا لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کیا۔ وہ رحمت العالمینؐ ہیں صرف رحمت المسلمین نہیں ہیں۔ وہ سارے جہانوں سارے زمانوں سارے انسانوں کے لئے رحمت ہی رحمت ہیں۔ خدا کی قسم اگر دنیا والے سیرت محمدؐ سے واقف ہو جائیں کہ ان کی زندگی کیا تھی۔ انہوں نے دوستوں، دشمنوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا۔ انؐ کا تحمل اور تدبر کیسا تھا تو دنیا والے ہم سے بڑھ کر آپؐ کے عاشق ہو جائیں بلکہ آپ کے غلام ہو جائیں۔ یہ غلامی ہزار آزادیوں سے بڑھ کر ہے اصل میں یہی آزادی ہے۔ جس آزادی کا پیغام آپؐ نے دیا۔ آزادی انسانیت اور احترام انسانیت کو آپس میں جوڑا۔ اس کی مثال نہیں ملتی وہ اتنے کشادہ دل اعلیٰ ظرف معاف کرنے والے انتقام نہ لینے والے سزا نہ دینے والے عزت اور محبت کرنے والے تھے کہ لوگ حیران تھے۔ ایسا انسان آسمان کی بوڑھی نگاہوں نے نہیں دیکھا۔ فتح مکہ کی کوئی مثال انسانی تاریخ میں نہیں۔ جو میرے دشمن ابوسفیان کے گھر چلا جائے اس کے لئے بھی پناہ ہے اور معافی ہے اور پھر ابوسفیانؓ آپ کے غلام ہو گئے۔
حفیظ تائب کے بھائی مجید منہاس نے اپنے بڑے بھائی کی بڑائیوں اور سچائیوں کے فروغ کے لئے اپنی ساری زندگی وقف کر دی ہے۔ مجید صاحب کا یہ احسان نئی نسلیں بلکہ کئی نسلیں یاد رکھیں گی۔ وہ اپنے گھر میں حفیظ تائب کی یاد کو تڑپتے دلوں میں آباد رکھنے کے لئے کوئی نہ کوئی محفل سجاتے ہیں۔ لوگ عشق رسولؐ اور نعت رسولؐ کی نسبتوں میں کھو جاتے ہیں۔ نامور ایڈووکیٹ سید ریاض الحسن گیلانی ان محفلوں میں چراغ کی روشنی کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ معروف صحافی اور ادیب بھائی ممتاز اقبال ملک کے بقول آپ کو وکیل مصطفیٰ کا خطاب مدینہ منورہ سے عطا ہوا ہے۔ گیلانی صاحب ملک صاحب کو ایک قلندر انسان سمجھتے ہیں جبکہ قلندر وہ خود بھی ہیں۔ یہ قلندری عشق رسولؐ کا فیضان ہے۔ وکلاء میں منصور الرحمن آفریدی کا مقام بھی عشق رسولؐ کی خوشبو پھیلانے والوں میں بہت نمایاں ہے۔ روحانی دانشور واصف علی واصف بھی آفریدی صاحب کو بہت پسند کرتے تھے۔ ایڈووکیٹ عزیزم رانا ندیم کے بھائی کے جنازے میں آفریدی صاحب کو دیکھا تو جی خوش ہوا۔ رانا صاحب بھی آفریدی صاحب کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔
چند دن پہلے مجید منہاس کے گھر پر ڈاکٹر خالد عباس کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے ایک محفل تھی جہاں عرفان و حکمت کے پیکر بابا عرفان الحق بھی تشریف لائے۔ اللہ نے انہیں خیال کی طاقت اور حیران کر دینے والی تخلیقی گفتگو کے فن سے نوازا ہے۔ بہت سادہ آسودہ انوکھی اور نئی معنویت کے ساتھ دین اور دنیا کے امتزاج والی بھرپور بات کرتے ہیں کہ لوگ دین اور صاحب دین حضرت محمدؐ کے لئے قربتوں اور محبتوں کے دائرے میں آنے لگتے ہیں ورنہ آج کل لوگوں کو دائرہ اسلام سے نکالنے کی باتیں بہت ہونے لگی ہیں۔ میرے خیال میں دین محمدؐ کی یہ تشریحات لوگوں تک پہنچانا بہت ضروری ہیں۔ بابا جی فرماتے ہیں کہ میں یہی پیغام لوگوں کے دلوں میں نقش کرنے کی ڈیوٹی کے لئے آیا ہوں۔
بابا جی نے میلاد کی ایک محفل میں فرمایا کہ ایک صحابیؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا کہنے لگا کہ میں جب آپؐ کے پاس ہوتا ہوں تو میرے دل کی کیفیت کچھ اور ہوتی ہے جب یہاں سے اپنے گھر چلا جاتا ہوں تو وہ کیفیت بدل جاتی ہے۔ اس صحابیؓ کا گھر مسجد نبویؐ سے صرف ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ ہم تو ڈیڑھ صدی کے فاصلے پر ہیں اور ہم اتنی دوری کے باوجود عشق رسولؐ کا چراغ اپنے دل میں جلائے ہوئے ہیں تو ہم جیسا کون ہو گا۔ اپنے بارے میں کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ صحابیوںؓ کا مقام اور فرض کچھ اور تھا ان جیسا کوئی نہیں ہو سکتا۔ ہمارا مقام اور فرض کچھ اور ہے۔ ہمیں اپنا کام کرنا ہے۔ خدائے محمدؐ ہمارے دلوں کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ہم اللہ کے محبوب کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ اس محبت کی روشنی کو پوری دنیا میں پھیلانا ہماری ڈیوٹی ہے۔ ہم دنیا والوں پر ثابت کر دیں کہ وہ کتنے بڑے رحمت العالمین ہیں اور یہ ہم نے اپنے طرز عمل سے ثابت کرنا ہے۔
مجید منہاس کے گھر بابا عرفان الحق نے کہا کہ مجھے یہاں موجود ہر شخص میں حفیظ تائب کی شکل نظر آ رہی ہے۔ حفیظ تائب کے بعد اتنے حفیظ تائب صرف ایک محفل میں جمع ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر خالد عباس نے کہا کہ میرے ہاتھ میں جو قلم ہے جس سے میں نعت لکھتا ہوں یہ حفیظ تائب کا عطا کردہ ہے۔ ہم شاعروں کو نعت کی طرف لانے والے وہی تھی۔ وہ بہت بڑے تھے۔ ان جیسی نعت کسی نے نہیں لکھی۔ وہ واقعی مجدد نعت ہیں۔
سیالکوٹ میں بھی حفیظ تائب مرحوم سے محبت کرنے والے ہیں۔ محفل میں ایم این اے میرے دوست ارمغان سبحانی بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ فضل محمود چودھری نے صدارت کی۔ حفیظ تائب صاحب کے پسندیدہ سرور حسین نقشبندی نے نعتیں سنائیں۔ مجید منہاس نے بھی خطاب کیا۔ میرا نام بھی مقررین میں تھا۔ مجید منہاس ہمیشہ مجھے حفیظ تائب کی محبت میں ہر کہیں اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔
ضلع قصور میں ختم نبوت تنظیم کے تحت ایک محفل ہوئی جس میں غلام شبیر نمایاں تھے۔ وکیل مصطفیٰ سید ریاض الحسن گیلانی خاص طور پر وہاں تشریف لے گئے تھے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی محفلوں میں علامہ احمد علی قصوری بہت باقاعدگی سے تشریف لاتے ہیں۔ شاہد رشید اور میرے ساتھ ان کی خاص محبت ہے۔ وہ بہت اعلیٰ سطح کے خطیب ہیں۔ سید ریاض الحسن گیلانی کے بہت مداح ہیں۔ قصور کی نسبت سے ان کا خیال آیا وہ مسلم ٹائون اپنی مسجد میں سیرت کے حوالے سے بہت محفلیں کرتے رہتے ہیں۔ آج کل ضلع قصور میں ان کی مصروفیات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔