کراچی میں صفورا چورنگی پر دہشت گردوں نے مسلمانان ِ پاکستان کے اسمعیلی فرقہ کے نہتے اور معصوم افراد کو جن میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی اُنہیں 13؍ مئی بدھ کی صبح اپنی بدترین دہشت گردی کا نشانہ بنا ڈالا تمام پاکستانی اِس ایک بات پرمتفق ہیں کہ پاکستانی اسمعیلی فرقہ سے وابستہ سبھی افراد چاہے وہ کسی بھی عمر کے ہوں وہ ہمیشہ پُرامن رہتے ہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ملکی معیشت کو رواں دواں رکھنے میں وہ بہت نمایاں ہیں اور کامیاب بھی‘ وہ کبھی اہل ِ اسلام کے کسی ددسرے فرقہ پر تکلیف دہ انگشت نمائی نہیں کرتے ‘ رتی برابر کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے ملک بھر کے کئی فلاحی اداروں میں یہ کمیونٹی دل کھول کر عطیات د یتی ہے اپنے کام سے کام رکھنے والے اِس جماعت کے معصوم اور بے گناہ لوگوں کے اندوہناک قتل نے پاکستان کے ساتھ دنیا کو بھی افسو سناک حیرانگی میں جکڑ لیا ، اسمعیلی فرقہ کے روحانی پیشواء پرنس کریم آغا خان نے13؍مئی بدھ کی صبح کے اِس دلدوز سانحہ پر بڑے دکھ اور غم کا اظہار کیا اُنہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایک پرامن جماعت پر حملہ عقل سے عاری تشدد کی عکاسی کرتا ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ بدھ کو کیے جانے والے اِس وحشت ناک حملہ کے محرکات سیاسی یا فرقہ وارانہ ہو سکتے ہیں جبکہ اسماعیلی ایک پر امن عالمگیر برادری ہے جو دنیا بھر میں دوسرے نسلی اور مذہبی گروہوں کے ساتھ پر امن انداز میں رہتی بستی ہے سانحہ ٗ ِ صفورا چورنگی کی گہری تفصیلات سے بخوبی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سندھ کی سیاسی حکومت کے ’کَل پُرزوں‘ کے کانوں پر شائد اب بھی جوں تک نہیں رینگی ہوگی؟ واقعی سندھ کے حکمران بڑے ڈھیٹ اور منہ زور ہیں جس شخص کے دماغ میں ذراسی بھی عقلی شُد بُد ہے وہ بھی اِس سانحہ کی اصلیت جاننے کے بعد یہ کہتا ہوا نظر آرہا ہے کہ طویل منصوبہ بندی اور سخت کڑی نگرانی کرنے کے بعد ہی یہ دہشت گرد اِس نتیجہ پر پہنچے ہوں گے کہ پاکستان کے اسماعیلی مسلمانوں کو اجتماعی طور پر کیسے اور کیونکر باآسانی قتل کیا جاسکتا ہے، جائے وقوعہ سے باحفاظت فرار بھی ہوا جاسکتا ہے کیا سندھ حکومت کے سول خفیہ ادارے بھنگ پی کر سوتے رہے اور اُنہیں کانوں کان خبر نہ ہوئی سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ سے کوئی شخص اور توقع بھی کیا کرسکتا ہے جبکہ کراچی کی آغاخان کمیونٹی دہشت گردوں کا بہت آسان ٹارگٹ تھا جس کی ملکی پرنٹ میڈیا نے کئی بار نشاندہی بھی کی تھی، مگر ‘ بڑے سائیں’سائیں‘ہی بنے رہے ‘ افسوس صدہا افسوس! ایک طرف ’یہ میں نہ مانوں‘ کی صورتحال‘ جبکہ دوسری جانب پاکستان کے عوام اور پاکستان کا میڈیا وفاقی حکومت سے یہ پوچھنے کا برابر حق رکھتا ہے کہ 16؍دسمبرگزشتہ برس پشاور کے آرمی پبلک سکول پر جب دہشت گردی کی خوفناک ‘ اندوہناک قیامت ڈھائی گئی پورا ملک اپنی فوج کی پشت پر آکھڑا ہوا تو اِس موقع پر پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور اُنکے کمانڈروں نے حکومت پر یہ بات واضح کردی تھی کہ دنیا کی واحد مسلمان ایٹمی قوم کی سلامتی ‘ نجات اور سیاسی وسماجی اور ثقافتی و معاشی فلاح وبہبود اُس وقت تک یقینی نہیں بنائی جاسکتی، جب تک ملک بھر سے اور خصوصاً کراچی شہر سے ہر نوع کے ‘ ہر قسم کے دہشت گردوں کا صفایا نہیں کردیا جاتا، وزیر اعظم اور اُنکے سیاسی رفقاء بھی اپنی عسکری قیادت کے موقف سے مکمل اتفاق کرچکے تھے، اِس موقع پر کل جماعتی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں ’نیشنل ایکشن پلان ‘ کی منظور ی دی گئی ساتھ ہی دہشت گردوں کی مکمل سرکوبی کیلئے جلد سماعت کی فوجی عدالتوں کے قیام کا نکتہ بھی اتفاق ِ رائے سے منظور ہوا تھا آج کتنا عرصہ ہوگیا ہے کہاں گیا وہ نیشنل ایکشن پلان ؟ فوجی عدالتیں اب تک کیوں قائم نہیں ہوسکیں؟ یہ بہت افسوس کا مقام ہے ہر کوئی سیاسی شخص مصلحت کا شکار ہے، نیشنل ایکشن پلان کانام سنتے ہی اِنکے کان سرخ ہو جاتے ہیں ہونٹ کپکپانے لگتے ہیں۔ یہاں تو کوئی بھی سوائے افواج ِ پاکستان کے اِن سفاک و سنگ دل دہشتگردوں کے خلاف نیک نیتی اور خلوص ِ دل سے میدان ِ میں اتر نے کو تیار ہی نہیں ہے وزیر اعظم پاکستان نے 16؍ دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہونے والی دہشتگردی کے بعد قوم کے نام اپنے نشری خطاب میں قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اب فیصلہ ہوچکا ہے کہ دہشت گردوں کو ملک بھر میں کہیں چھپنے کی جگہ تک نہیں ملے گی مگر دہشت گرد ملک بھر میں اپنے متعینہ اہداف تک کیسے پہنچ جاتے ہیں ؟ وزیر اعظم نواز شریف کیا اب بھی یونہی خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ اُنہوں نے ’ایپکس کمیٹی ‘ کی چیئرمین کیپ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو پہنادی ؟ اِس ’سائیں‘ قائم علی شاہ میں کسی کو وہ اعلانیہ یا پوشیدہ صلاحیتیں کہیں دکھائی دیتی ہیں؟ کیوں نہیں وفاقی حکومت ’سندھ حکومت ‘ کو شٹ اَپ کال دیتی؟ کیا ہر چیلنج سے نمٹنا اکیلی پاکستانی فوج کا کام رہ گیا ہے؟ یہ حکومتی اعلیٰ عہدے ‘ یہ منصب و سرکاری اعزازکس کھاتے میں سرکاری خزانہ پر بوجھ بنے رہیں گے کراچی میں لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اُٹھاتے رہیں؟ ایک کام صرف ایک کام سندھ حکومت انجام دینے سے قاصر ہے آرمی چیف جنرل راحیل نے واضح کہا تھا کہ سیاست زدہ کراچی کی پولیس کو گڈاپ سے بن قاسم تک سرجانی ٹاؤن سے بندرگاہ تک فی الفور شفاف انتظامیہ میں تبدیل کر دیا جائے، جب وزیر اعلیٰ سندھ خود پارٹی سربراہ کا ذاتی ملازم ہو تو اُس سے اِس قسم کی توقع کیسے رکھی جائے۔ کراچی کے اندر گھسے ہوئے دہشت گرد زیادہ باہم آپس میں متحد ہیں‘ جنونی تشدد کی آخری حدوں تک یا تشدد کی دھمکیوں کے نپے تلے استعمال کو یقینی بنانے میں دھمکیاں دیکر سیاسی اثر و رسوخ تک اِنہیں اپنی رسائی حاصل کرنے میں اب تک کوئی نہیں روک سکا جبر و خوف زدہ کا ماحول پیدا کرکے وہ کبھی سیاسی مفادات کے نام پر کبھی فرقہ ورانہ آویزش کے انتشار کو ہوا د ے کر یا کبھی عصبیتی نعروں کی آڑ میں اپنے مذموم گھناونے خونریز اہداف حاصل کرنے کیلئے ہمیشہ ہمیں کامیاب نظر آ ئے وہ لمحہ بھر میں ملکی انفراسٹریکچر کو افراتفری کے اَن دیکھے خوف کی آماجگاہ بنانے میں ہمارے ملکی ذمہ داروں سے زیادہ ’ایکشن ‘ میں رہتے معلوم ہوتے ہیں۔
سانحہ ٗ ِ صفورا چورنگی۔کراچی میں ’آئینی رٹ‘ کی دھجیاں
May 16, 2015