کراچی ایک بار پھرلہومیں نہاگیا۔ایک برادری کے 47معصوم افراد بس میںدن دیہاڑے گولیوں سے بھون دئیے گئے۔ اس ہولناک واردات پر ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشکبار ہے۔ شہر نگاراںابھی تک سوگ میں ڈوباہے اور لوگ ابھی تک سکتے میں ہیں کہ یا خدایہ کیا ماجرا ہوگیا۔ شہریوں کے ذہنوں میں چھپا خوف ایک بار پھر عفریت بن کر دن کا سکون اور رات کی نیند اچاٹ کر رہا ہے۔ اس سے قبل کراچی اور بلوچستان میں اجتماعی قتل کی ایسی کئی وارداتیں رونما ہو چکی ہیں ۔کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی زبان اور نسل کی بنیاد پر ٗ لوگوں کے سینوں میں گولیاں اتاری جاتی رہیں ٗ اب تو ان زخموں کا شمار بھی ممکن نہیں رہا۔ ہر بار غیرمعمولی اجلاس ہوتے ہیں اور ہربار وعدے دعوے اور بڑھکیں ہماری سماعتوں کا حصہ بنتی ہیں ٗ پھر کوئی روح فرسا واقعہ رونما ہوتا ہے اور سارے وعدے ٗ دعوے اوربڑھکیں ہوا میں اڑا دیتا ہے اورلوگوں کو دوبارہ وسوسوں میں ڈال دیتا ہے۔ سانحہ صفورا گوٹھ میں ملوث سفاک قاتل کون تھے ٗ ان کی پشت پناہی کون کر رہا تھا ٗ اس پر فی الوقت کچھ کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ کراچی اور بلوچستان کی اس غارت گری میںکئی باتیں مشترک تھیں لیکن ایک بات تو بالکل الگ ہے کہ بلوچستان میں تو اکثر شناختی کارڈ کی جانچ پڑتال کر کے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا ہے لیکن کراچی کی اس لرزہ خیز واردات میں یہ تکلف ہی گوارانہیں کیا گیا ٗ اس لئے کہ قاتل جانتے تھے ٗ ان کا ہدف کون لوگ ہیں؟ شاید یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ انہیں موت کے منہ میں کیوں دھکیل رہے ہیں۔ البتہ یہ سوال اپنی جگہ اہمیت اختیار کر گیاہے کہ اس بار واردات کے لئے اسمٰعیلیوں کا ہی انتخاب کیوں کیاگیا۔
کراچی کی تعمیر وترقی میں آغا خانیوں، بوہریوں اور پارسیوں کا کردار تاریخی رہا ہے۔ خاص طور پر قیام پاکستان اور استحکام پاکستان میں آغا خانی اسمٰعیلیوں کا رول اظہرمن الشمس ہے۔ یہ ایک ایسی برادری ہے جو اب بھی صلہ و ستائش کی تمنا سے بے نیاز ہو کر شہر کی زندگی رواں دواں رکھنے میں بھر پور کردار ادا کر رہی ہے۔ تعلیم ٗ صحت اور تعمیرات کے شعبوں میں اسمٰعیلیوں کی خدمات کا انکار ممکن نہیں۔ ایک ایسی برادری جو اپنے کام سے کام رکھتی ہو اس کو نشانہ بنانا ٗ کوئی سادہ بات نہیں ٗ یہ کوئی گہری سازش معلوم ہوتی ہے ۔ بدھ کے دن صفوراگوٹھ کے علاقے میں معصوم اسمٰعیلیوں کے قتل عام نے کراچی کے امن اورآپریشن پر پھر کئی سوال اٹھا دئیے ہیں۔ اس آپریشن کو شروع ہوئے دوسال ہونے کو آئے ہیں مگر ابھی تک یہ آپریشن نتائج کے حوالے سے ہمہ گیری ثابت نہیں کرسکا۔ آئے دن ہم سنتے ہیں کہ طالبان ٗ دہشت گردوں ٗ قاتلوں اور بھتہ خوروں کے خلاف کامیاب کارروائیاں جاری ہیں ٗ یہ سن کر دل بلیوں اچھلنے لگتا ہے لیکن اچانک ایک بڑا واقعہ ٗ کوئی ایک بڑی واردات ساری خوشیاں خاک میں ملا دیتی ہے۔کراچی میںقانون شکن افراد کی اثر پذیری ریاست اور سماج کے لئے ایک چیلنج بنتی جارہی ہے۔ اس کے برعکس نامعلوم ہم کب تک اپنے اپنے اسٹیک کی بانسریاں بجا کرایک دوسرے کو مرعوب کرتے رہیں گے۔ جب تک سندھ اور وفاقی حکومت ایپکس کمیٹی سے آنکھ مچولی کھیلتی رہیں گی ٗ جب تک وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ٗ وزیراعظم میاں نواز شریف سے روٹھے رہیں گے ٗ جب تک تمام ادارے دہشت گردی کے خلاف یکجا اورہم نوا نہیں ہوں گے ٗ جب تک سب مل کر کراچی کو گلے نہیں لگائیں گے ٗ اس وقت تک قاتل دندناتے پھریں گے ٗ لاشیں گرتی رہیں گی ٗ لوگ اپنے پیاروں کے لاشے اٹھاتے رہیں گے۔ اسی طرح گلی محلوں میں کہرام مچا رہے گا۔ شہر سنسان اور قبرستان آباد ہوتا رہے گا۔
مسلسل کراچی کے نوحے لکھتے لکھتے اب تودل گھبرانے لگاہے۔ کراچی کے حالات پرمیرے ایک صحافی دوست عثمان جامعی کی تازہ نظم ’’گھر سے جاتے ہوئے ‘‘حسب حال لگتی ہے ٗ وہ آپ کی نذرکرتا ہوں:
اب ضروری ہے یہ ٗ گھر سے جاتے ہوئے
چہرے اپنوں کے آنکھوں میں بھرلیجیے
سارے شکوے گلے دورکرلیجیے
کچھ بھی دل میں نہ رکھیے’’کبھی‘‘ کے لئے
یہ ’’کبھی‘‘ ہو نہ ہو ٗ واپسی ہو نہ ہو
سب کو بڑھ کر گلے سے لگا لیجیے
ہو جو مہلت تو وعدے وفا کیجیے
ہاں مگر اب نیا کوئی وعدہ نہ ہو
کل کے دامن میں کوئی ارادہ نہ ہو
کیا کریں گے اگروقت زیادہ نہ ہو
اس طرف گھر کی چوکھٹ کے ‘ کس کو خبر
زندگی ہو نہ ہو
آپ کے گھر سے جانے کا منظر ہے جو
یہ جو منظر ہے ناں‘ پھر نہیں آئے گا
یہ جو منظر ہے آنکھوں میں کھب جائے گا
یہ جو منظر ہے سینے میں چبھ جائے گا
روح میں تیر بن کر اتر جائے گا
آج دہلیز پر وقت تھم جائے گا
آج دہلیز پر وقت مرجائے گا
کراچی کا مسئلہ بڑی تیزی سے سوجھ اور تدبر کی سطح سے بلند ہورہا ہے۔ نہ قلم کام آیا نہ بندوق نے کوئی راہ دکھائی ٗ اور نہ شعور کے بطن سے کوئی بجلی کوندی ٗگھات لگائے بیٹھا دشمن ہماری سب تدبیروں پربھاری پڑ رہا ہے۔ اگر سانحہ پشاور ٗ سانحہ ماڈل ٹائون اور ان جیسے دوسرے واقعات کے اصل ملزموں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈال کرانہیں کیفرکردارتک پہنچا دیا گیا ہوتا تو آج ہم ماتم کناں نہ ہوتے۔ بات صرف نیت کی ہے ٗذرا اپنے اپنے اسٹیک کے دعوے ایک طرف دھرکر ٗ محض عوام اور پاکستان کو اسٹیک ہولڈر سمجھ کر آگے بڑھئے اور بسم اللہ کرکے کام کا آغازکیجئے ٗ پھر دیکھئے امن وآشتی ٗ روشنیاںاور زندگی کیسے پلٹ کر واپس آتی ہے۔