1948ءوادی کشمیر میں جنگ کا پانسہ اس دن پلٹا جب وائسرائے ہند لارڈ ما¶نٹ بیٹن کے حکم پر مشرق بعید سے رائیل ائر فورس کو بلاکر بھارتی فوج کی سپورٹ میں جھونک دیا گیا اور کچھ عرصہ بعد حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کی ڈائریکشن پر سیز فائر کر دیا ان دنوں قبائلی لشکروں نے بھارتی فوجوں کو ماربھگایا تھا۔ قبائلی اور کشمیری مجاہدین سری نگر سے چند کوس کے فاصلے پر مورچہ بند ہو گئے تھے ان دنوں افغانستان سے پاکستانیوں کو کوئی خطرہ نہ تھا۔
1965ءکی جنگ میں بھارت کے ساتھ حساب برابر رہا وہ اس لئے کہ پاک قوم متحد تھی پاک فوج کا کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ خاں پرہیزگار با کردار اور بہادر جرنیل تھا۔ پاک مسلح افوج کے پاس بھارت کی نسبت بہتر جنگی ہتھیار تھے جو بعض معاہدوں کے تحت امریکہ اور یورپی ممالک سے ملے تھے مثلاً پاکستانی ٹینک بھارتی ٹینکوں سے بہت بہتر اور پاکستانی توپیں بہت اعلیٰ قسم کی تھیں۔ جنہوں نے چونڈہ کی لڑائی میں بھارتی ٹینکوں کا سرمہ بنا دیا۔ بھارتی ٹینکوں کے ٹکڑے آج بھی چونڈا کے وسیع میدان میں بکھرے نظر آتے ہیں راقم جنگ چونڈا کا عینی شاہد ہے۔
ہمارے چین، ایران، ترکی، انڈونیشیاءو دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے ان ممالک نے 65ءجنگ میں پاک مسلح افواج کی بھرپور مدد کی۔ 71ءپاک بھارت جنگ میں پاک قوم بٹ چکی تھی 10 سال کے مارشل لاءپھر ایوب خاں کے بعد جنرل یحییٰ خاں کی حکمرانی کو عوام نے دل سے قبول نہ کیا اس دور آمریت میں پاک فوج کو شکست سے دو چار ہونا پڑا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔
71ءکی پاک بھارت جنگ میں پاک مسلح افواج کو سہ مکھی جنگ لڑنا پڑی اس جنگ میں اسرائیل، روس، امریکہ نے بھارت کا ساتھ دیا اور بھارتی ستر ہزار مسلح گوریلوں نے سول کپڑوں میں مشرقی پاکستان میں داخل ہوکر اپنے ٹھکانے بنائے اور مکتی باہنی کی بنیاد رکھی۔ اس کا انکشاف سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارتی وزیراعظم مرارجی ڈیسائی نے پارلیمنٹ میں کیا۔ مکتی باہنی کے 1½ لاکھ گوریلوں نے پاک فوج کو طویل چھاپہ مار جنگ سے اتنا تھکا دیا کہ بھارتی بڑے حملے کے وقت ان میں اتنی طاقت نہ تھی کہ جم کر مقابلہ کر سکتے۔ اس کے علاوہ پاک فوج کے پاس نہ فضائیہ کی سپورٹ تھی نہ بحری جہاز، نہ ٹینک اور نہ بڑی توپیں تھیں۔ روسی جنگی کشتیوں نے پاک نیوی کے چند بحری جہاز تباہ کر دیئے اور اسرائیل نے 71ءکی جنگ میں بھارت کو ایئر کور مہیا کئے رکھے۔
امریکی فارن سیکرٹری ہنری کسنجر اپنی کتاب میں لکھتا ہے ”ہم چاہتے تھے کہ بنگلہ دیش بن جائے“۔ شنید تھی کہ جب مشرقی پاکستان میں سمندری طوفان آیا تھا تو امریکن ایڈ کے بکسوں میں ہتھیار، گولہ بارود بھیجا گیا جو مکتی باہنی نے استعمال کیا۔ اب صورتحال پاکستانیوں کیلئے زیادہ گھمبیر اور خطرناک ہو چکی ہے دشمنوں نے پاکستان کے خلاف 4 محاذ کھول دیئے ہیں۔
1۔ دہشت گردی محاذ، جہاں تقریباً 60 ہزار پاکستانی اور 7 ہزار سکیورٹی پرسنل مارے جا چکے ہیں۔ 2۔ لائن آف کنٹرول محاذ پر جہاں تقریباً ہر روز دونوں اطراف شہری اور فوجی مارے جا رہے ہیں۔ 3۔ افغانستان محاذ جہاں پاک فوج اور افغان آرمی کے مابین جھپڑیں ہوئی ہیں درجنوں فوجی اور شہری مارے گئے۔ 4۔ ایرانی محاذ۔ پاکستان کا یہ دیرینہ دوست بھی ہمیں سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیاں دینے لگا ہے۔ ایرانی کمانڈر انچیف نے کہا ”اگر پاکستانیوں نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کےخلاف کارروائی نہ کی تو ہم خود ان کےخلاف کرینگے“ اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سی آئی اے، را اور افغان خفیہ ایجنسیاں دہشتگردوں کو ٹرینڈ کر کے پاکستان بھیجتی ہیں۔ جب دوست ملک دشمن بن جائے اور جنگ کی دھمکیاں دینے لگے تو اس میں اپنے فارن آفس کی نااہلی بھی جھلکتی نظر آتی ہے۔ بھارت کے ساتھ ہمارا پرانا اور لمبا محاذ ہے جہاں آرمی کوریں اور جدید لڑاکا طیارے ہر وقت ایک دوسرے پر چھپٹنے کے تیار رہتے ہیں۔
اب پاکستانی سرحدوں پر جو صورتحال بن رہی ہے اس کا نقشہ کرنل ریکھے ریان بین الاقوامی شہرت یافتہ دفاعی تجزیہ نگار اپنی کتابFourth Round میں یوں کھنچتا ہے۔ ”خدا شکر ہے کہ اس نے ہمیں 1987ءمیں بڑی جنگ سے بچا لیا لیکن ہم کتنی بار اس دوزخ کی آگ سے بچتے رہیں گے“ ریان اس جنگ کا ذکررہا تھا جب بھارتی فوجیں کیل کانٹے سے لیس ہوکر راجیو گاندھی کے حکم پر جنرل سندر جی کی کمان میں لائیو ایمونیشن کے ساتھ سندھ فتح کرنے نکلی تھیں اور جنرل ضیاءالحق کی ایک دھمکی پر بھارتی فوجیں پسپا ہو گئیں۔ موصوف لکھتا ہے ”ذرا سوچو اگر بھارت کے اکثر لیڈر جنگی جنون میں مبتلا ہو گئے جیسے ارون سنگھ اور سندر جی ہوئے تھے۔ ذرا سوچو اگر کوئی تشدد پہ آمادہ ذہنی مریض بھارتی لیڈر جس کا دل پاکستان سے نفرت سے بھرا ہوا ہو، وہ بھارت کا وزیراعظم بن جاتا ہے اور اپنے ساتھی ہندو عقابوں اور مسلح افواج کے اعلیٰ افسروں کو پاکستان پر حملہ آوری کیلئے آمادہ کر لیتا ہے اس دن کا تصور کرو جب دونوںممالک کی مسلح افواج ہولناک جنگ کی بھٹی میں جھونک دی جاتی ہیں اور جنگ کے شعلے دلی سے گلگت تک کواپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔جس سے برصغیر میں موت کے سائے ہونگے ہر جگہ آگ اور خون کے الا¶ بھڑکیں گے بڑے اور خوبصورت شہر لاہور، دلی، بمبئی اور اسلام آباد ورلڈ وار II کے برلن اور لندن کی طرح مٹی کے ڈھیر بن جائینگے۔ شہروں میں شیلٹر نہ ہونے کی وجہ موتیں بہت زیادہ ہونگی“ ۔
پاک سرحدوں پر سلگتے ہوئے جنگ کے شعلوں کو اگر نظر انداز کیا جاتا رہا اور ہمارے سیاسی لیڈر اور حکمران دفاع وطن کو یوں ہی پس پشت ڈالتے ہوئے پانامہ اور نیوز لیکس اور بنی گالا کے بنگلوں کو ڈھانے کے چکروں میں پڑے رہے اور اپنی توانائیاں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں صرف کرتے رہے تو ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو لیبیا کے معمر قذافی اورعراق کے صدام حسین کا ہوا تھا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے مذہبی، سیاسی اور عسکری لیڈر اپنے تفرقات بھلا کر مل بیٹھ کر ان دشمنوں کے مقابلہ کیلئے قوم نوجوانوں اور مسلح افواج کو ملکی دفاع کیلئے تیار کریں۔ ممکن ہو سکے تو ہمسایہ مسلمان ممالک سے بہتر تعلق بنائیں اور اس چومکھی جنگ کی تیاری میں مصروف ہو جائیں جو عراق، شام اور لیبیا کی طرح پاکستان پر مسلط کی جانے والی ہے۔