مدر ڈے اور ”ماﺅں“ کی حالتِ زار

May 16, 2017

مسرت لغاری ........ فکر جہاں

قارئین حیرت ہے ابھی دو روز ہوئے انگریزوں کی پیروی میں سرزمین پاکستان پر بھی ”مدر ڈے“ منایا گیا بلکہ منایا جاتا ہے۔ ہرسال ”مدر ڈے“ پر حسب سابق حکمرانوں سے لیکر درجنوں مزید ”بڑی بڑی آوازیں“ بھی رنگین اور مسحج و مقضیٰ الفاظ میں بیانات جاری کرتی ہیں کہ پاکستان کی عورتیں انتہائی ذہین و فطین ہیں۔ بہترین مائیں ہیں‘ بچوں کی پیدائش و پرواخت تک انتہائی محنت‘ قربانی اور جانفشانی سے کام لیتی ہیں۔ ساتھ ساتھ معاشرتی ترقی میں بھی اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ قابل صد احترام ہیں اور وغیرہ وغیرہ ہیں۔ لہٰذا ان تمام تر قربانیوں کا مرد حضرات یہی بدلہ دے سکتے ہیں کہ مدر ڈے منا کر انہیں بہلا دیا جاتا ہے۔ کوئی ان انگریزی کا ”مدر ڈے“ منانے والوں سے پوچھے مگر کون پوچھے کہ اردو بلکہ سات رنگ کی بولیاں بولنے والے پاکستان میں یہاں کی معزز ماﺅں اور قابل احترام خواتین کے ساتھ جو ہر روز ست رنگے مظالم روا رکھے جاتے ہیں‘ تشدد کیا جاتا ہے۔ ان کا ذمہ دار کون ہے؟ دریا کے کنارے مر جانے والے کتے کی ذمہ داری قبول کر لینے والے حضرت عمرؓ کا دور لد چکا یہاں تو قیام پاکستان سے لیکر لمحہ موجود تک ہر روز درجنوں بے بس‘ لاچار عورتیں مردانہ معاشرے کی درندگی‘ شوہروں کے ہاتھوں سوختگی‘ جسمانی تشدد‘ روحانی زدوکوب اور نفسیاتی جبر و جور کا شکار ہوکر موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں جن کا نام اخباری سستی خیزی اور لون مرچ کی خبروں کی شعلہ ریزی کے بعد کہیں نظر نہیں آتا۔ ان کا مکمل بھرپور وجود قیمہ قیمہ اور ریزہ ریزہ ہونے کے بعد گمنامی کی غاروں میں دفن ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں ہمیں راوی کے کنارے مر جانے والے کتے کی قسمت اور اہمیت پر ہمیشہ رشک آتا ہے جس کا کم از کم بار بار حوالہ تو دیا جاتا ہے یہاں تو عورت کا حوالہ کیا نام ہی گم ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں قارئین ہمیں ”خواتین کا عالمی دن‘ اور ”مدر ڈے‘ وغیرہ منانے جیسے دنوں کی سمجھ نہیں آتی۔ ہمارا حتمی دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ماﺅں یا خواتین کے ساتھ اکثر حالات میں جو سلوک ہوتا ہے‘ اس کی کبھی کسی کو آج تک سزا نہیں ملی۔ بلکہ یہاں تو عورتوں کو برسرعام کاروکاری کرنے والوں‘ ان کو جلانے والوں‘ بھرے بازاروں میں ان کو بے حجاب نچانے والوں‘ ڈھول بجا بجا کر عزت کے بدلے عزت کا اعلانیہ اعلان کرنے بلکہ حملہ کرنے والوں‘ ان کا تماشہ کرنے اور تماشہ بنانے والوں بلکہ خود پولیس والوں کو بھی کبھی کوئی کچھ نہیں کہتا۔ سب کے سامنے سب کچھ ہوتا رہتا ہے مگرحکمرانوں سمیت کوئی قانون‘ کوئی آئین‘ کوئی انصاف حرکت میں نہیں آتا۔ اپنے اپنے حصے کے چند فوری شدید الفاظ بول کر فرائض سے عملاً فارغ ہو لیا جاتا ہے۔ مجرم اور قاتل تین اگلے روز وہیں دندناتے رہے ہوتے ہیں۔ مردانہ جابر معاشرہ مرد کو مرد ہونے کی رعایت‘ سہولت اور مہلت دیکر واضح طورپر بچا لیتا ہے جبکہ مظلوم و مقہور عورتیں یا تو خودکشی کر لیتی ہیں یا زندہ درگور ہو جاتی ہیں۔ انہیں نہ گھروالے قبول کرتے ہیں نہ معاشرے والے نہ ہی وہ خود کو خود قابل قبول ہوتی ہیں۔ حیرت ہے ان ننگے حقائق کے باوجود بھی انتہائی بے حیائی اور دیدہ دلیری سے پاکستان میں عورتوں کے حقوق کا دن اور ”مدر ڈے“ وغیرہ منایا جاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں یعنی ننھی ماﺅں کو جس طرح اکثر درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘ اس ظلم کو دیکھ کر صرف زمین آسمان کے آپس میں ٹکرا جانے کا مرحلہ باقی رہ جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے قارئین کو یاد ہوگا ”مدر ڈے“ والے دن ہی میمن گوٹھ میں چھ سالہ ہاجرہ اور پانچ سالہ سسی کی ظلم و زیادتی کے بعد پھینکی ہوئی لاشیں وہاں پولیس تھانے کی دہلیز سے ملی تھیں‘ جنگلی کتوں نے ان کے پھول جیسے اجسام کو نوچ نوچ کر صرف ہڈیاں باقی چھوڑ دی تھیں۔ ہمیں تو حیرت ہے بلکہ سنا ہی ہے کہ کتا بھی کتوں کا بھنبھوڑا اور چھوڑا ہوا شکار نہیں کھاتے۔ پھر خدا جانے وہ کیسے ظالم کتے تھے جو ہڈیاں باقی چھوڑ گئے۔ تاہم کمیٹی والوں نے کسی بھی قسم کے کسی کتے کو ابھی تک گولی نہیں ماری۔ مستقبل کی دو معصوم مائیں ”مدرڈے“ منانے کی رونق کیلئے پہلے ہی رزق خاک‘ ہو گئیں۔ قارئین ہم نہیں سمجھتے کتوں کے بھنبھوڑنے اور معاشرے کے جھنجھوڑنے کا حوالے دیکر اپنے درندوں کو راہ راست پر لایا جا سکتا ہے تاوقتیکہ ان کو لرزہ خیز مظالم‘ پر لرزہ خیز سزائیں نہیں دی جاتیں۔ ان مجرموں کو اُبلتے ہوئے تیل کے کڑاہوں میں ڈالا جائے۔ چوکوں پر کھڑا کرکے سنگسار کیا جائے یا پھر ان پر امریکی فوج کے درندے چھوڑے جائیں تب جا کر شاید پاکستان کی مظلوم ماﺅں کو ظلم و تشدد اور درندگی و سوختگی سے چھٹکارا نصیب ہو سکے گا ورنہ تو میدان جنگ ہو یا اپنے گھروں کا میدان وحشت و دہشت ہو وہ بے چاری ہر جگہ ہر رشتے میں لٹ رہی ہیں۔ وہ ایسے ایسے مظالم اور تشدد کا شکار ہیں کہ جن کی تصویر بھی نہیں اتر سکتی۔ ایدھی ہاﺅس ایسی ہی ماﺅں سے بھرے پڑے ہیں۔ آخر میں کہنا یہ ہے کہ آئندہ ماﺅں بہنوں کے بارے میں درندگی کی خبریں دینا بند کی جائیں کیونکہ (ایسی خبریں پڑھ پڑھ کر کئی مجرم مزید درندے بن جانے کے مزید طریقے سیکھتے ہیں) بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ”مدر ڈے“ اور ”حقوق نسواں“ کا عالمی دن منانے کے تماشوں کی خبریں نہ دی جائیں تاہم اگر معاشرہ عملاً احترام خواتین کا ٹھٹھہ اڑانے کے بعد لچھے دار بیان جاری کرنا ا اتنا ہی ضروری سمجھتا ہے تو پھر آئندہ بلکہ ہر سال ”مدر ڈے“ منانے سے پہلے مندرجہ بالا خبریں اور سال بھر میں ہونے والے مزید ہزاروں پُرتشدد حالات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کر لیا جائے کہ انہیں کیا کرنا چاہئے؟ کیا ہم یہ ایام منانے کے قابل ہیں؟ کیا ماﺅں اور مستقبل کی ماﺅں کے بارے میں کوئی لائحہ عمل طے کر سکتے ہیں۔ یا یونہی ہر سال خانہ پری کیلئے حکومت رنگین وعدے کرکے خواتین کو بے وقوف بناتی رہیں گی؟ حقیقت یہ ہے قارئین ہمارا معاشرہ اخلاقی لحاظ سے اتنا بانجھ اور روحانی اعتبار سے اس حد تک خالی ہو گیا ہے کہ ہمیں دن منانے زیب نہیں دیتے۔ پہلے عورت کے مقام اور ماں کے احترام کا تعین تو کر لیں۔ اسے اس کی عزت نفس سمیت جینے کی اجازت اور آزادی کا سانس لینے کی مہلت تو دیدیں پھر دن بھی منا لینا چاہئے۔ اندازے کے مطابق فی الحال تو ہمارے معاشرے میں کھلے عام یا اندرخانے خواتین کیلئے تقریباً ہر گھر ابوغریب کی جیل‘ گوانتاناموبے کا عقوبت خانہ اور مقبوضہ کشمیر میں دشمن کے بنائے ہوئے اذیت خانے کی طرح ہے۔ فرق یہ ہے کہ ایسی خواتین کی تصویریں یا خبریں ٹی وی خبرنامے میں نہیں دکھائی جاتیں بلکہ وہاں ان کو اشتہاروں میں چیزوں کے بیچنے کے نام پر بیچا جا رہا ہے۔ بہرحال ان حالات کی روشنی میں ہماری حتمی رائے یہ ہے کہ پاکستان میں آئندہ ”مدر ڈے“ ہرگز نہ منایا جائے ورنہ نمائشی جلسوں جلوسوں کے برعکس خواتین اصلی اور کھری صورتحال کے اظہار کیلئے سڑکوں پر نکلیں گی۔ احتجاجاً بڑے بڑے احتجاجی جلسے کریں گی اور جلوس نکالیں گی تاکہ دنیا بھر میں ماﺅں کی عزت و تکریم کیلئے منائے جانے والے ”مدر ڈے“ میں پاکستانی خواتین بھی اپنا حصہ ڈال سکیں۔ خدا نہ کرے کبھی پاکستانی مائیں اس مقام پر آجائیں کہ سالوں تک بچے ان کی خدمت اور حال احوال سے دور رہ کر کبھی کبھار ان کو ”مدر ڈے“ کا رنگین کارڈ پوسٹ کرکے اپنے اسلامی مذہبی فرائض سے روگردان ہو جائیں۔ اے کاش ہماری دعا کے مطابق پاکستانی مو¿دب اولاد ہمیشہ ماﺅں کا احترام کرتی رہے۔ انہیں مغربی دن منانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہتر ہے وہ مشرق کی اولاد ہیں‘ مشرقی ہی رہیں‘ مذہبی ہی رہیں کیونکہ یہی قوم اور وطن کے بہترین مفاد میں ہے۔

مزیدخبریں