وزیراعظم اپنی وزارت عظمیٰ کے ڈیڈ دوروں میں سے شاید دوسری بار چاروں وزرائے اعلیٰ کو لے کر غیر ملکی دورے پر گئے ہیں۔ قبل ازیں صرف پنجاب کے وزیراعلیٰ آدھے دوروں میں ہمراہ رہے ہیں جیسے وہ چیف منسٹر نہیں‘ ڈپٹی پرائم منسٹر ہوں۔ خیر اب شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کا کا چانس حتمی طور پر ختم ہو گیا ہے کیونکہ مریم نواز نے ٹویٹ کیا ہے کہ چوتھی بار بھی نوازشریف وزیراعظم بنیں گے اور خود وہ 2018ءکے الیکشن کے ذریعے عملی سیاست میں آ جائیں گے۔ اس ٹویٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ مریم نواز پہلے ایم این اے بن کر کوئی وزیر شذیر بنیں گی اور پھر 2023ءکے الیکشن میں وزارت عظمیٰ کی امیدوار ہوں گی ۔ بہرحال اچھا لگا کہ سارے وزرائے اعلیٰ ساتھ تھے اگرچہ اس میں وزیراعظم کا کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ مطالبہ بھی چائنہ کی طرف سے تھا کیونکہ ایک دو بار چائنہ کی طرف سے ایسے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا تھا کہ پاکستان کے تمام صوبوں میں سی پیک کے حوالے سے تنازعات ہیں اور اتفاق رائے کافقدان ہے۔ اب تازہ ترین دورے میں نیو سلک روڈ پر چین نے 124 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے ون بیلٹ اینڈ ون روڈ نامی عالمی وژن کو اس صدی کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دیا ہے۔ شی جن پنگ نے کہا ہے کہ منصوبے میں شامل ملکوں کو 8 ارب 70 کروڑ ڈالر امداد دیں گے۔ سی پیک منصوبے میں سب سے زیادہ دلچسپی چین‘ روس‘ ترکی‘ امریکہ‘ پاکستان لے رہا ہے لیکن اس کے سب سے زیادہ ثمرات افغانستان‘ بھارت اور ایران کے پاس پہنچیں گے۔ امریکی مندوبین نے بھی انتہائی دلچسپی دکھائی ہے اور امریکی کمپنیاں ”سلک روڈ“ منصوبے میں شرکت کے لئے تیار ہیں۔ اس موقع پر ایران اور افغانستان تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو والی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ دوسری طرف بظاہر بھارت مخالفت کر رہا ہے لیکن بھارت کو تیزی سے احساس ہو رہا ہے کہ سی پیک منصوبے میں شمولیت ترقی اور کامیابی کی طرف اشارہ ہے۔ صرف تین ماہ بعد بھارت سی پیک منصوبے میں اس طرح شریک ہو گا کہ سب کو پیچھے چھوڑ دے گا اور چین‘ روس کے بعد بھارت سی پیک منصوبے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والا تیسرا بڑا ملک ہو گا جو ایک طرف ثمرات سے فیض یاب ہو گا تو دوسری طرف سلک روڈ کے ذریعے پاکستان میں ریشہ دوانیوں کے لئے اسے ایک واضح راستہ مل جائے گا۔ سی پیک منصوبہ سارے کا سارا پاکستان کے ارد گرد گھومتا ہے۔ ویزے پاسپورٹ میں نرمیاں اور پاکستان کے تمام علاقوں تک آنے جانے والوں کے لئے آسان ترین رسائیاں ہوں گی جس کی وجہ سے پاکستان میں مداخلت کے بے پناہ آثار پیدا ہو جائیں گے۔ ایران اور افغانستان پر سرحد بندی کے باوجود دہشت گرد مسلمانوں اور پاکستانیوں کے بھیس میں داخل ہو کر انتشار اور بدامنی کے ساتھ دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں بھارتی افغانی روسی امریکی اور دوسرے ممالک کے باشندے پاکستانی حدود میں باآسانی نقل و حرکت کر سکیں گے اور تخریب کاریوں کے لئے انہیں ایک کھلا راستہ مل جائے گا۔ پاکستان میں غربت مہنگائی‘ بیروزگاری اور کرپشن ہے۔ مقامی باشندوں کو ڈالروں‘ پونڈوں‘ یوآن کا لالچ دے کر کچھ بھی کرایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں لوگ غربت بیروزگاری سے عاجز آ کر کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ بچے قتل کر دیتے ہیں۔ خودکشی کر لیتے ہیں۔
اپنی اولاد بیچ دیتے ہیں۔ اپنے گردے‘ آنکھیں‘ خون بیچ دیتے ہیں۔ اسلئے کے پی کے‘ گلگت بلتستان‘ بلوچستان وغیرہ کے پسماندہ علاقوں میں لوگوں کو اور ان کی مجبوریوں‘ ایمان‘ ضمیر کو خریدنا بہت آسان ہو گا۔ یہ وہ واحد نکتہ ہے جس پر موٹی عقل کے ہمارے حکمرانوں نے سوچنا گوارہ نہیں کیا۔ اس کے علاوہ مختلف ممالک کی مختلف اقوام اپنے مذہب ثقافت زبان اور ورثے کے ساتھ داخل ہوں گی جس سے ہماری زبان اور کلچر پر نمایاں اثرات مرتسم ہوں گے۔ آئندہ دس سالوں میں پاکستانی ثقافت کا منظر نامہ یکسر بدل جائے گا۔ یہ منصوبہ اصل میں تو چینی تھنک ٹینکرز کا ہے اور نہایت عالیشان منصوبہ ہے بلکہ کہنا چاہئے کہ نیو سلک روڈ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا اور شاندار منصوبہ ہے لیکن پاکستان کے لئے اس میں کئی مضمرات بھی پنہاں ہیں۔ یہ سارا منصوبہ پاکستانی حدود پر لاگو ہوتا ہے یعنی خیال چین کا اور زمین پاکستان کی ہے۔ تاہم آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ منصوبے آسمانوں یا خلا¶ں میں نہیں بنتے۔ اس کے لئے زمین درکار ہوتی ہے تب کوئی خیال پایہ¿ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ چین ہماری سرزمین پر بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اگرچہ اس سرمایہ کاری کا 80 فیصد حصہ بھی چائنہ کے پاس جا رہا ہے کیونکہ انجینئرز اور لیبر بھی زیادہ تر چائنیز ہے۔ پاکستانیوں کی عملاً شمولیت صرف بیس فیصد ہے لیکن ظاہر ہے کہ گھر بنانے کے لئے پلاٹ درکار ہوتا ہے۔ کسی کے پلاٹ پر پلازہ بنا کر آدمی کروڑوں روپے کمانے لگے۔ اس وقت سلک روڈ کے منصوبے کی یہی حالت ہے لیکن مدعی سست گواہ چست والی بات ہے۔ ایک آدمی اپنی زمین لاوارث اور کچرے کا ڈھیر بنائے رکھے جبکہ دوسرا آدمی زمین بیکار پڑی دیکھ کر اس پر اپنی فصل کاشت کر لے اور اچھی فصل ہونے پر چار گنا فوائد حاصل کرے تو قصوروار کون ہے؟ اب صورتحال یہ ہے کہ چین سی پیک منصوبے کا خالق اور سرپرست بن گیا ہے۔ وہی بڑے فیصلے کر رہا ہے اور کم و بیش ایک درجن ممالک کے ساتھ لین دین کر رہا ہے جبکہ پاکستان کا کردار ایک طفیلی اور ریلو کٹے کا ہے کیونکہ پاکستان کے پاس نہ سرمایہ کاری ہے نہ پاکستان کی م¶ثر لیبر ہے نہ کردار ہے اور نہ ہی کوئی مشورہ ہے۔ پاکستانی حکمران تو چائنیز حکومت کی زبان بولنے لگتے ہیں چنانچہ چین اس وقت سی پیک منصوبے کا مالک و مختار بن کر تمام فیصلے کر رہا ہے۔ وہ بھارت کو بھی ساتھ ملانا چاہتا ہے۔ بھارتی حکومت اس منصوبے پر درپردہ سو فیصد آمادہ ہے۔ اس کے لئے وہ اپنا بیک ڈور چینل اور میڈیا کو استعمال کر رہا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سلک روڈ اصل میں خزانے کی کنجی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو نہ اس حقیقت کا ادراک ہے کہ پاکستانی سرزمین اب سونے کے مول ہو گئی ہے اور خزانے اگلنے والی ہے لیکن خزانے کا منہ کھلا ہے جس میں کوئی بھی گھس کر اپنی بوریاں بھر سکتا ہے۔ پاکستان کی واحد دلچسپی حکمرانوں کے اندھا دھند معاہدوں‘ دستخطوں اور فوٹو سیشن تک محدود ہیں۔ سی پیک کی سٹرٹیجی کیا ہونی چاہئے۔ یہ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کا کیا پروسیجر ہونا چاہئے اور یہ کہ پاکستانی خطے کو سب سے زیادہ سہولیات اور مفادات حاصل ہونے چاہئیں۔ اس کا باقاعدہ ایجنڈا‘ پالیسی‘ سٹرٹیجی اور پروگرامنگ ہونی چاہئے لیکن پاکستان کو ڈکٹیشن کی عادت ہے۔ اب امریکہ کے بعد پاکستان چائنہ کی ڈکٹیشن پر چل رہا ہے۔ پاکستان کی اپنی سوچ‘ اپنا زاویہ‘ اپنے مفادات‘ اختیارات‘ نظریات‘ تجربات اور اتصالات و اطلاعات کیا ہیں؟ یہ کسی کو نہیں معلوم۔ جو کچھ چائنہ کہہ دیتا ہے پاکستان انہی الفاظ کو دہرا دیتا ہے۔ چائنہ تو نیو سلک روڈ بنا رہا ہے لیکن پاکستان کی وہی اولڈ اپروچ ہے۔ پھر پاکستان کے حصے میں کیا آئے گا؟