اُلٹا لٹکو گے تو سیدھا نظر آئے گا

May 16, 2017

مطلوب وڑائچ

محترم حسن نثار صاحب اس دور کے ماہر نقاد ہی نہیں شاطر صیاد بھی ہیں۔ اس لیے اپنے ایک نشتریا شعر میں فرماتے ہیں: ”اُلٹا لٹکو گے تو سیدھا نظر آئے گا“ بہت پہلے کہا گیا یہ فقرہ شاید پاکستان کے موجودہ حالات کے لیے تھا۔وہ یوں کہ گذشتہ ایک سال سے زائد عرصہ سے پاناما لیکس کا ایشو تھا۔ خدا خدا کرکے اس کا فیصلہ جو محفوظ تھا وہ سامنے آیا تو دو معزز ججز نے میاں نوازشریف صاحب کو گنہگار قرار دے دیا جبکہ بقیہ تین نے مزید تفتیش کے لیے ساٹھ یوم کی مہلت مانگی۔ مگر فیصلہ آتے ہی ن لیگیوں نے پورے ملک کی مٹھائی خرید کر بانٹ دی۔ اس طرح ڈان لیکس میں سات ماہ بعد رپورٹ ایشو کرنے کا موقع آیا تو مسلم لیگ کو اپنے دو وفاقی وزراءاور ایک وفاقی سیکرٹری کو بڑے بے آبروانہ انداز سے گھر بھیجا گیا۔جبکہ رپورٹ کو منظرعام پر لانے میں لیت ولعل کا مظاہرہ کیا گیا۔کیونکہ یار لوگوں کا خیال ہے کہ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے تھے۔ مگر اب (ن) لیگ کی طرف سے رپورٹ منظر عام پر نہ آنے کا جشن منایا جا رہا ہے اور وفاقی وزیر داخلہ اسے فتح مبین سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ شائد وزیراعظم کی کابینہ کے اراکین اور جملہ معاونین کے لیے حسن نثار نے کہا ہوگا کہ ”اُلٹا لٹکو گے تو سیدھا نظر آئے گا“
ڈان لیکس اور پاناما لیکس کا بھوت بدستور کچھ لوگوں کے اعصاب پر سوار ہے۔ پاناما لیکس میں صرف اور صرف میاں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ بچی۔ اس کے سوا عزت، وقار اور نیک نامی سمیت کچھ بھی نہیں بچا۔ دو ججوں نے جو کہہ دیا اس کا دھونا اگلی کئی نسلوں تک بھی نہیں دُھل سکتا۔ مگر خوشیوں کی برسات اور بارات کا ایسا اہتمام کیا گیا کہ جیسے ناقابل شکست قلعہ فتح کر لیا اور کے ٹوکو سر کیا ہے۔ باقی تین ججوں نے حمایت میں ایک بھی لفظ کہا ہوتا تو جشن ” سو روز“ منایا جاتا۔ تین ججوں نے جو سوالات اٹھائے ہیں ان کے جوابات تو شریف خاندان کے چوٹی کے وکلا بھی دینے سے قاصر رہے۔ اب جے آئی ٹی کے سامنے خود نوازشریف اور ان کے بچے جواب دیں گے۔ قطری خط مسترد ہو گیاجس کے اوپر کیس کا سارا دارومدار تھا۔ مے فیئر فلیٹس کی خریداری قطری خط سے ثابت کی گئی تھی۔ اب کیا جواب دیا جائے گا کہ پیسے کہاں سے آئے۔ قانونی طور پر اس کی منی ٹریل نہیں دی جا سکتی۔ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سعودی شاہ نے پیسے دے دیئے تھے۔ بہرحال میاں نوازشریف کو دو ماہ کا ریلیف مل گیا ہے۔ اخلاقی طور پر انہیں کورٹ کے حتمی فیصلے تک اقتدار سے الگ ہو جانا چاہیے تھا۔ اقدار کا یہی تقاضا ہے مگر پاﺅں تلے آیا بٹیرہ چھوڑنے پر عقل کل کے دعویدار تیار نہیں ہوتے۔ کہتے ہیں قانون میں اخلاقیات کا کیا لینا دینا۔ کچھ حلقے تو انہیں دو ماہ بھی قبول کرنے پر تیار نہیں مگریہ 2040ءکی پلاننگ کیے بیٹھے ہیں۔
ادھر آصف علی زرداری کو اپنی باری کی پڑی ہوئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کھاتے ریاست کا ہیں سوار نوازشریف کے کندھے پر ہیں اور گن زرداری کے گاتے ہیں۔ سراج الحق نے سوا اینٹ کی مسجد تیار کر رکھی ہے۔ حکومت کے خلاف کرپشن کی مہم چلا رہے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ مل کر اس کارِ خیر میں حصہ نہیں لیتے کہ کہیںن لیگ کی حکومت نہ گر جائے۔ جماعت کی سیاست آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بن گئی ہے۔ کے پی کے میں تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد ہے۔ آزاد کشمیر میں ن لیگ کی اتحادی ہے۔ پشاور کے قریب جے یو آئی ہند کی صد سالہ تقریبات میں سراج الحق نے مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا عندیہ دیا۔ اب زرداری سے بھی ملاقات کر لی۔ بعید نہیں پیپلزپارٹی ، جے یو آئی اور جماعت اسلامی کل ن لیگ کے ساتھ مل کر الیکشن لڑتی نظر آئیں۔ ن لیگ کچھ دینے کی پوزیشن میں ہے اور ان پارٹیوں کو کچھ لینے کی ضرورت ہے۔ بہرحال فی الحال تو تیل اور تیل کی دھار دیکھنے کی ضرورت ہے۔
(ن) لیگ سینیٹ میں اپنی اکثریت کے خواب دیکھ رہی ہے۔ زرداری ان خوابوں کو چکناچور کرنے کی پلاننگ بنا رہے ہیں ۔پیپلزپارٹی اکتوبر میں قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیتی ہے۔ تحریک انصاف تو پہلے ہی ایسا کرنے کے لیے تیار ہے۔ یوں جنوری فروری میں الیکشن ہو سکتے ہیں۔ زرداری سینٹ میں ن لیگ کی اکثریت کا زعم توڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ ان کو صرف باری کے وعدے پر ایسا کرنے سے باز رکھا جا سکتا ہے۔ جہاں سوال یہ ہے کہ فوج کا کیا موڈ ہے؟ وہ جمہوریت کو ڈی ٹریک کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے اور نہ کوئی کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ اسے اپنے وقار اور ذمہ داری کا احساس ہے۔ ڈان لیکس کو فوج اورچودھری نثار نے بھی سکیورٹی کہا تھا۔حکومت نے اس رپورٹ میں جو تاخیر ہوسکتی تھی وہ کی اور رپورٹ کو تو اب تک بھی لٹکایا ہوا ہے۔
بہرحال ایسے معاملات میں فوج ٹرپل ون بریگیڈ بھیجتی ہے اب صرف ٹویٹ بھیجا جو حکومت کے لیے سوہانِ روح اورپریشانی کا باعث بن گیا۔ اس کے بعد فوج اور حکومت کے مابین شدید کشیدگی دیکھنے میں آئی۔ وزیراعظم نوازشریف نے محض جنرل جہانگیر کرامت سے نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام کا مشورہ دینے پر استعفی لے لیا تھا اب معاملہ تو بہت زیادہ سنگین اور گھمبیر تھا مگر مشرف کا ”کو“ پیش نظر تھا۔ جنرل قمر باجودہ آئے نہ وزیراعظم نے ان سے باز پرس کرنے کی ہمت کی۔ بڑی مشکل سے ایک ملاقات طے ہوئی جس میں فوج نے لچک دکھائی اور حکومت نے سکھ کا سانس لیا مگر فوج کے اندر بے چینی مزید بڑھ گئی۔ سول قیادت معاملہ سلجھا رہی ہے جو مزید الجھ گیا، جس کا اندازہ چودھری نثار اور مریم اورنگ زیب کے تلخ اور ترش بیانات سے ہوتاہے۔ سردست پانامہ کیس میں نوازشریف کی وزارت عظمی بچی اور قمر جاوید ملاقات کے نتیجے میں وزیراعظم کے چین کے بظاہر پرسکون دورے کی راہ ہموار ہوئی۔ میں نہیں سمجھتا کہ فوج کے ٹویٹ واپس لینے سے فوج کی کوئی سبکی ہوئی ہے۔ فوج نے ٹویٹ کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیا اور ٹویٹ واپس لے کر جمہوریت کی کارفرمائی میں اپنا کردار ادا کر دیا جو کچھ بھی ہوا ہمیں اپنی فوج سے کل بھی پیار تھا اور آج بھی پیار ہے۔
قارئین! کل 17مئی کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں پاکستانی قونصل جنرل اور اس کے سٹاف کے ناروا سلوک کے خلاف پوری پاکستانی کمیونٹی قونصل جنرل کے سامنے احتجاج کر رہی ہے لیکن اوورسیز پاکستانی پوچھتے ہیں کہ ہمارے بھیجے ہوئے زر مبادلہ اور ٹیکس کے پیسوں سے پاکستان کی بیوروکریسی عیاشیاں کرنا کب چھوڑے گی؟

مزیدخبریں