گذشتہ بدھ کو ہم سے بھی کالم کا ناغہ ہوا۔ ایک عرصہ سے منگل اور بدھ کو گوشت کا ناغہ سنتے آئے تھے۔ مگر کالم کا ناغہ پہلی بار ہوا وہ بھی اس لیے کہ سارا دن سفر اور ڈرائیو کی نذر ہوا ورنہ اس حوالے سے ازخود نوٹس کا کوئی امکان نہ تھا۔ روٹری کلب اسلام آباد کی طرف سے شرکت کی دعوت تھی جس سے فیض یاب ہونے کا ارادہ کر لیا مگر یہ بھول گئے کہ اب عناصر میں وہ اعتدال نہیں سو جہلم تک تو ٹھیک ٹھاک ڈرائیو کر لی مگر اس کے بعد ’’سہانے موسم‘‘ یعنی بارش نے رفتار اور سوچ اور دونوں کو متاثر کیا سو جونہی مقام ’’مقصود‘‘ یعنی مارگلہ ہوٹل پہنچے تو پرانے پاپی روٹری متین رضا خورستند چابکداستانہ چیک ان کے باوجود اس قابل نہ ہوئے کہ کھانا کھاتے ہی سیشن میں شریک ہو جاتے حالانکہ موسم بدستور سہانا تھا اور ہوٹل کے اندر کا موسم تو کچھ زیادہ ہی سہانا تھا۔ مگر مضمل قواء نے چائے تک اپنا غلبہ جاری رکھا اور شام کی چائے جو ہرگز سادہ نہ تھی کانفرنس ہال میں جا پہنچے جہاں ایر وائس مارشل ریٹائرڈ سہیل امان کی خوبصورت اور باقاعدہ پر مغز گفتگو سننے کا موقع ملا۔موصوف کی دلیرانہ اور شفاف باتیں سن کر ذہن میں آیا کہ ایسے ذہین لوگ جب نوکری میں ہوتے ہیں تو کیوں ان کے پاکیزہ افکار کو جگہ نہیں ملتی پھر یاد آیا کہ نوکری تو ایک ایسے نظام کی ہے جو انگریزوں نے غلاموں کے لیے بنایا تھا اور اپنی سوچ اور مثبت اور شفاف باتیں کرنے والوں کا بھلا اس نظام کی نوکری میں کیا کام!
کانفرنس کے اختتام پر یعنی رات کو موسیقی کی محفل سے پہلے منتظمین نے احتیاطاً ریکی کا ایک سیشن بھی رکھ چھوڑا تھا تا کہ سارے دن کی تقریریں سن کر اعصاب اگر زیادہ کشیدہ ہو گئے ہوں تو موسیقی کی محفل کو خراب نہ کریں مگر عوام زیادہ تر اتنی محنت سے ترتیب دیئے گئے ریکی سیشن کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھی اور براہ راست موسیقی پر رقص کر کے اپنے اعصاب کی کشیدگی کو خود دور کرنا چاہتی تھی چنانچہ موسیقی پر فیض کی نظم ’’مجھ سے پہلی سی محبت‘‘ کو بھی مجرے کے انداز میں سنا گیا اور اس کے بعد تو نصیبو لال کے نغموں کی فرمائش کا طوفان آ گیا۔ جس سے تنگ آ کر گلوکارہ نے ایسے نغموں سے معذرت کی۔ اس دوران وہ لوگ جنہوں نے اچھے گانے اوریجنل گانے والوں کے سامنے بیٹھ کر سنے تھے وہ اپنے اپنے کمروں میں جا پہنچے یا لابی میں کافی کے گھونٹ لے کر ماضی کو یاد کرتے رہے کانفرنس کا اگلا روز بھی مصروف ترین تھا۔ مگر اس روز کی کارروائی پر بھی ملکی سیاست کی بے صبری کی چھاپ واضح تھی۔ ہر زبان پر سوال ملک اور قوم کے حوالے سے تھا مگر کوئی بھی تسلی بخش جواب دینے کے قابل نہ تھا۔ کیونکہ صبح صبح تمام شرکاء نے اخبارات کا تفصیلاً مطالعہ کر رکھا تھا۔ اس لیے غیر رسمی گفتگو ملکی سیاست اور اس میں در آنے والی بے یقینی کے حوالے سے ہی رہی۔ اور شام کو اس کا نتیجہ بھی سامنے آ گیا جب ٹی وی سکرینوں پر وفاقی وزیر داخلہ پر گولی چلنے اور ان کے زخمی ہونے کی خبر چلی۔ اب اس سے زیادہ بے صبری اور بے یقینی کیا ہو کہ ایک ملک کا وزیر داخلہ جو تمام ملکی شہریوں کی سلامتی کا ذمہ دار ہے اپنے آبائی حلقے میں یعنی گھر میں بھی محفوظ نہیں۔ اسی سے گڈ گورننس اور نظام کی اہلیت کے بارے میں دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے!
تاہم وزیر داخلہ کے زخمی ہونے اور گولی کا نشانہ بننے پر مختلف سیاسی رہنماؤں اور پارٹیوں کی جانب سے اظہار تاسف پر دل کو یک گونہ تسلی ہوئی کہ ابھی بھی پرانی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں اگر یہ سب ’’نمونے‘‘ اب اگرچہ نمونے ہی ہیں۔ مگر رواداری اور انسانی جان کے حوالے سے یہ سب پیغامات مثبت ہی تصور کیے جائیں گے۔اس واقعہ سے الیکشن کے التواء کے حوالے سے بحث ایک بار پھر چل پڑے گی مگر ایران کی مثال سامنے رکھنی ہوگی کہ ایک الیکشن سے قبل دھماکے میں پوری قیادت کا صفایا ہو گیا تھا مگر الیکشن اپنے وقت پر منعقد ہوئے جس کے اثرات آج کے مضبوط ’’ایران‘‘ کی صورت میں نکلے ہیں۔ جس نے ٹرمپ کے یک طرفہ وار کو برداشت کرنے کا ایک حوصلہ پیدا کر رکھا ہے۔ دوسری طرف ٹرمپ سیاست کا ایک اور در تیزی سے کھل رہا ہے جس میں اسرائیل اور سعودی عرب شانہ بشانہ شامل ہو کر گزریں گے۔ اس حوالے سے آئندہ دنوں میں مزید اقدامات کی توقع ہے۔ادھر ملکی سیاست میں جوں جوں الیکشن قریب آ رہے ہیں ’’پرندوں‘‘ کی ایک شجرسے دوسرے شجر کو پرواز میں تیزی آ رہی ہے۔ اور پارٹی کیا اسٹیبشلمنٹ کی طرف سے بھی الزام اور جوابی الزام کا عمل تیزی پکڑ رہا ہے۔ مگر اس سارے سناریو کو الیکشن کا حصہ ہی تصور کیا جا رہا ہے۔
اس وقت کپتان کازیادہ زور جنوبی پنجاب اور ن لیگ کا سندھ کی طرف ہے۔ جنوبی پنجاب میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے لوگوں نے حسبِ روایت اپنی اہل پارٹی سے جدا ہونا ہی تھا سو ہوئے مگر انہوں نے عقل مندی کی براہ راست کسی بڑی پارٹی میں شامل نہ ہوئے بلکہ اپنا پورا گروپ اس میں ضم کیا یہ ایک سیاسی چال ہے اور اس چال سے تمام متعلقہ فریقین فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ البتہ نقصان کے معاملے میں جنوبی پنجاب محاذ صوبہ والے فائدہ میں رہیں گے۔
ایک اہم مسئلہ نیب کی طرف سے نواز شریف پر منی لانڈرنگ کا الزام ہے جو اس حوالے سے تازہ ہے کہ منی لانڈرنگ کا رخ بھارت کی طرف ہے۔ یہ الزام انتہائی سنجیدہ ہے اور اس کے حوالے سے کوئی دو آراء نہیں کہ ایسا الزام بغیر ثبوت کے نہیں عائد ہونا چاہئے تھا اور جس نے بھی اپنے کالم میں یہ رپورٹ کیا ہے اسے ڈاکٹر شاہد مسعود کی طرح ہی جواب دہ ہونا پڑے گا۔ چیئرمین نیب کو اس حوالے سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہو گی۔ آخر میں ا یک اچھی خبر کہ سحر و افطار ٹرانسمیشن میں اسلامی موضوعات پر بات کرنے کے لئے پی ایچ ڈی سکالر کی شرط عائد کر دی گئی ہے۔ ویسے تو ایسی شرائط دیگر موضوعات پر بات کرنے والوں پر بھی عائد ہونی چاہئیں تاکہ دین اور دنیا دونوں کا بھلا ہو سکے۔!!
ناغے کی اہمیت اس لئے بھی مسلم ہے کہ ناغے کے روز تبدیلی کا احساس ہوتا ہے اور نت نئے خیالات بھی وارد ہوتے ہیں۔ ناغہ ضروری ہے چاہے وہ سیاسی ہو، ادبی ہو یا اسلامی موضوعات پر بات کرنے کے حوالے سے ہو۔ ہمارے اس کالم کو ناغے کے روز کالم ہی تصور کیا جائے۔