حزیں قادری اور تنویر قادری

حزیں قادری سے ان کی گلبرگ رہائش گاہ پر متعدد ملاقاتیں رہیں۔ وہ عام طور پر بیک وقت چار پانچ فلموں پر کام کرتے تھے۔ انکے شاگرد سامنے بیٹھے ہوتے۔ وہ باری باری ہرایک کو فلموں کے ڈائیلاگ، سکرین پلے وغیرہ لکھا رہے ہوتے۔ ان کا اصل نام بشیر احمد ہے۔ انہوں نے چار سو سے زائد فلمی کہانیاں اور آٹھ ہزار سے زائد فلمی نغمے لکھے۔ حزیں قادری گوجرانوالا کے ایک گاؤں راجہ تمولی میں 1926ء کو پیدا ہوئے اور 19 مارچ 1991ء میں 65 برس کی عمر میں وفات پائی۔ ان کی تدفین کینال پارک لاہور میں ہوئی۔ فلمی شاعری کے علاوہ انہوں نے ادبی شاعری بھی کی۔ ’’سٹھ سہیلیاں‘‘ کے نام سے انہوں نے اپنی غزلوں اور نظموں پر مشتمل کتاب ترتیب دی مگر چھپوا نہ سکے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’ہیر‘‘ کی ساٹھ سہیلیاں تھیں، اسی مناسبت سے انہوں نے کتاب کا نام منتخب کیا۔ امرتا پریتم نے کہا تھا کہ ایک اچھا شاعر فلم کی نذر ہو گیا۔ گیت لکھنے سے قبل حزیں قادری سگریٹ پینا شروع کرتے، جب سگریٹ ختم ہوتا تو وہ گیت مکمل کر چکے ہوتے۔ سیکڑوں فلمیں اور ہزاروں گیت لکھنے والے حزیں قادری صرف مڈل پاس تھے۔ بھٹی پکچرز کے تحت بننے والی فلمیں چن مکھناں، سجن پیارا، جند جان، وارث شاہ وغیرہ حزیں قادری نے لکھیں یعنی ان فلموں کی کہانیاں، مکالمے، سکرین پلے اور نغمے وغیرہ عنایت حسین بھٹی نے اردو فلم ’’بکھرے موتی‘‘ بنائی جو فلاپ ہو گئی۔ بھٹی صاحب پریشانی کے عالم میںحزیں قادری کے پاس گئے تو انہوں نے کہا ’’بھٹی صاحب! اساں تہانوں چن مکھناں، جِند جان تے سجن پیارا بنایا۔ ہن تسیں بکھردے امرتے بکھرو‘‘
حزیں قادری اپنی جیب میں تین قلم رکھتے تھے۔ تینوں کی روشنائی بھی مختلف ہوتی یعنی نیلی، سیاہ اورسبز۔ کوئی فلم ساز ان سے فلم لکھانے آتا تو وہ کہا کرتے۔ ’’میرے کول تِن قلم نیں۔ اک قلم سلور جوبلی فلم دا، دوجا گولڈن جوبلی تے تیجا پلاٹینم جوبلی دا، تسیں کیہڑی فلم لکھانی اے؟‘‘ اکثر ان کا دعویٰ درست ثابت ہوتا۔ حزیں قادری کے مشہور گیت ہیں۔ …؎
وے سونے دیا کنگنا سودا اکو جیہا
دل دینا تے دل منگنا سودا اکو جیہا
۔۔۔۔۔۔
میرے دل دے شیشے وچ سجنا
پئی سجدی اے تصویر تیری
۔۔۔۔۔۔
تانگے والا خیر منگ دا
تانگا لاہور دا ہووے تے بھاویں جھنگ دا
۔۔۔۔۔۔
تیری ہک تے آلھنا پاواں گی
میں گٹکوں گٹکوں گاواں گی
۔۔۔۔۔۔
ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں
۔۔۔۔۔۔
سوچ کے یار بناویں بندیا
سوچ کے یار بناویں اوئے
حزیں قاردی کے ایک ہونہار شاگرد تنویر قادری ہیں۔ ان کا اصل نام تنویر احمد خان ہے۔ چند روز قبل میرے دوست محمد اکرم قلندری میرے فقیر خانے پر تشریف لائے تو انکے ہمراہ تنویر قادری بھی تھے۔ ہم دونوں کی رہائش ایک دوسرے کے قریب ہے مگر ہماری یہ پہلی ملاقات تھی۔ تنویر قادری سے میں نے انکے استاد حزیں قادری کے بارے میں بہت سی باتیں شیئر کیں۔ تنویر قادری کا کلام سننے کا موقع ملا۔ وہ بہت عمدہ شاعر ہیں۔ اردو، پنجابی کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی شاعری کرتے ہیں۔ شاعر کے علاوہ نثر نگا ر بھی ہیں۔ مختلف موضوعات پر مضامین کے علاوہ انہوں نے اقوال زریں بھی لکھے۔ تنویر قادری کے دو تین اقوال پیش ہیں۔
٭اپنا ضمیر روشن رکھو، زندگی خود بخود روشن ہو جائے گی۔
٭دولت کی زیادتی رُتبے کی پہچان کھو دیتی ہے۔
٭جو لوگ شرافت کے دائرے میں رہتے ہیں، وہ ہر دائرے سے آزاد ہوتے ہیں
تنویر قادری کو واپڈا سے ریٹائر ہوئے دو برس بیت چکے ہیں۔ انہوں نے فلموں کے لیے بھی گیت لکھے مگر وہ اپنا شعری مجموعہ تاحال نہیں چھپوا سکے۔ انہوں نے گیت، بولیاں، نظمیں اور غزلیں لکھیں۔ تنویر قادری نے 1989ء میں انڈیا کا دورہ کیا۔ وہاں انہوں نے دلیپ کمار، لتا منگیشکر، سنیل دت سے ملاقات کی۔ انہوں نے بزر گان دین کی درگاہوں پر بھی حاضری دی۔ اداکار اکمل سے وہ بہت متاثر رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکمل کی شخصیت اور فن پر انہوں نے کتاب لکھی ہے۔ اکمل کی سات بیٹیاں اور ایک بیٹا شہباز اکمل ہے۔ شہباز اکمل نے بھی اداکاری میں اپنا نام اور مقام بنایا ہے۔ تنویر قادری کی چند بولیاں پیش ہیں۔ …؎
بی اے پاس دے نصیب اج سڑ گئے
تے ان پڑھ جھولی پے گئے
۔۔۔۔۔۔
سنہری والاں دے وچ چاندی آ گئی
کوئی تترا ویاوہن نہ آیا
۔۔۔۔۔۔
تیراجھوٹ وی مینوں سچ لگدا
وے بہتے سارے نوٹاں والیا
تنویر قادری نے حزیں قادری کی شاگردی دسمبر 1977ء میں اختیار کی جبکہ ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ 1972-73ء میں شروع ہوگیا تھا۔ تنویر قادری کے گیت ناہید اختر، افشاں، مہناز، ترنم ناز اور دیگر گائیکوں نے گائے۔ ان کا ایک گیت ہے جو مہناز نے گایا…؎
میں تاں رنگی گئی تیرے رنگ سجناں
دیوے پیار دی گواہی انگ انگ سجناں

ای پیپر دی نیشن