قوم کا مستقبل؟

ہر ملک میں نسل نو کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے لیئے نظام تعلیم تشکیل دیا جاتا ہے تاکہ قوم کا مستقبل تابناک ،روشن اور محفوظ بن سکے۔ عصری تقاضوں کو مدنظر رکھ کر مختلف مضامین، مختلف نصاب ، اور مختلف مہارتوں کا اہتمام کیا جاتا تاکہ طلبہ و طالبات معیاری تعلیم حاصل کر کے ملک و قوم کی خدمت بجا لانے کے اہل ہو سکیں۔ہمارے ملک کو آزاد ہوئے 70سال کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن ہم اپنے نظام تعلیم کو ٹھوس بنیادوں پر استوار نہیں کر سکے اور اب تو اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی ذمہ داری بن چکی ہے اور ہر صوبہ اپنے سیاسی مفادات کو پیش نظر رکھ کر تعلیمی پالیسی ترتیب دیتا ہے ۔ہر صوبے کا نصاب تعلیم مختلف ،ہر صوبے کا نظام امتحانات مختلف اور ہر صوبے میں پرائیویٹ سکولوں کا سسٹم جدا ہے ۔جو ہر وقت پر ائیویٹ سکولوں کے لیئے نت نئی پالیسیوں کو رواج دیتا ہے ۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ گورنمنٹ سکولوں میں معیاری تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ سکولوں کو فروغ حاصل ہوا۔گورنمنٹ سکولوں نے اگر معاشرے کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کیا ہوتا تو ہر گلی کوچے میں پرائیویٹ سکولوں کے بورڈ آویزاں نہ ہوتے ۔گورنمنٹ سکولوں کی پرائمری سطح تک حالت دگرگوں رہی ہے۔کسی زمانے میں پنجاب میں پرائمری سکولوں کے لیئے حکومت زمینداروں سے زمین لے کر بلڈنگ بناتی تھی جو عموما سکول کی عمارت وڈیرے کی بیٹھک ،مال خانہ ، مال مویشی کے لیئے اضافی کمرے کا روپ دھار لیتی اور بچے بچیاں ادھر کا راستہ بھی نہیں لیتے تھے۔دور دراز علاقوں میں تو اساتذہ ایسے بھوت سکولوں کا رخ بھی نہیں کرتے تھے۔یقینا ابتدائی تعلیم ہر گز جاذب نظر نہیں رہی ۔حد تو یہ ہے کہ گورنمنٹ سکولوں کے اساتذہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں داخل کراتے ہیں تاکہ ان کا مستقبل سنور جائے کیا ایسی صورت حال کو حوصلہ افزا ءکہا جا سکتا ہے ۔مانا کہ گورنمنٹ سکولوں کی عمارات بہتر ہو گئی ہیں کشادہ کمرے ،کھیل کا میدان ،پینے کے پانی کی ترسیل کا انتظام ،لیٹرینوں کا بہتر معیار،فیس مناسب لیکن مقابلے کی فضا میں تعلیمی معیار ہر گز قابل رشک نہیں ۔اور نقل کا رواج تو قومی تباہی کا دوسرا نام ہے ۔
ہمارا مسجدو مکتب کا نظام تعلیم بھی عوام کے دنیاوی مقاصد کے لیئے کوئی کشش نہیں رکھتا ۔ مولانامحمد اکرم اعوان نے اپنے ایک لیکچر میں علمائے کرام سے مخاطب ہوتے ہوئے دل گرفتہ انداز میں کہا کہ آپ بتائیں کہ آپ کے اس مدرسے کے نظام میں کتنے سی ایس پی افسر پیدا ہوئے ،کتنے محکمہ پولیس میں بطور ایس پی یا ڈی ایس پی یا تھانے دار بنے اور کتنے اس نظام کے پڑھے لکھے دیگر شعبہ زندگی میں کامیاب رہے ۔اگر آپ نے دیانتدار افراد کو معیاری تعلیم سے مزین نہیں کیا تو پھر رونا کس بات کا ۔معاشرے میں کرپشن ،بددیانتی ،حرام خوری اور نا جائز کمائی زوروں پر ہے ۔مسجد کے مولوی کا کوئی اثر و رسوخ معاشرے پر نہیں سوائے ان سیاسی علماءکے جو ہر حکومت میں سدا شاد باد ہوتے ہیں اور اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں ۔پرائیویٹ سکولوں کا جائزہ لیا جائے تو کثیر تعداد ایسے سکولوں کی ہے جن کی فیس اچھی خاصی ہیں ۔ نامور پبلک سکولز جیسے تعلیمی ادارے جن کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات ڈاکٹرز ،انجینیرز،سی ایس پی آفیسر،آرمی آفیسر ز اور دیگر شعبہ جات میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔میں ایک آرمی پبلک سکول و کالج کا ایک عشرے سے زیادہ عرصہ پرنسپل رہا ۔وہاں کے طلبہ وطالبات آج فوج میں آفیسرز ،ڈاکٹرز انجینیرز اور سی ایس پی آفیسرز کی حیثیت میں کام کر رہے ہیں۔
ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ میرٹ پالیسی ہماری سوسائٹی سے معدوم ہو چکی ہے ۔حال ہی میں میرے ایک شاگرد فیصل ممتاز نے الیکڑیکل انجنیرکے طور پر کامسیٹ اٹک سے کیمپس کو ٹاپ کیا اسے گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔مجموعی لحاظ سے کامسیٹ یونیورسٹی کے نیٹ ورک کو ٹاپ کرنے پر اسے دوسرے میڈل سے نوازا گیا ۔لیکن ایک عرصے سے تلاش روزگار میں سر گرداں یہ انجینیر بے روزگاری کے بحر بیکراں میں ٹامک ٹو ئیاں مار رہا ہے ۔حالانکہ اس نے آئی ایس ایس بی پا س کیا میڈیکل پرابلم کی وجہ سے آرمی میں نہ جا سکا۔فوجی جوان کا بیٹا ہے اس کا والد فوجی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا اور اس یتیم بچے نے خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے تعلیمی میدان میں کامیابی کا ایک معیار قائم کیا۔مگر پاکستانی سو سائٹی جو کرپشن کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہو چکی ہے وہاں نا بغہءروزگار جو بے آسراہو،روزگار کی تلاش ناممکنات میں سے ہے۔
میں اس موقع پر سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس نوجوان انجینیرکو فوجی فاﺅنڈیشن فیکڑی میں روزگار دلایئں تاکہ اس کی بیوہ ماں جس کی زندگی صدموں سے دوچار رہی ہے اور جس نے ہمت نہیں ہاری اوربیٹے کو معیاری تعلیم دلائی تاکہ اس کے دکھوں کا مداوا ہو سکے ۔اور پیرانہ سالی میں اپنے بیٹے کی خوشیاں دیکھ سکے ۔جہاں تک پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا تعلق ہے چاروں صوبوں کے وزرائے تعلیم سے اپیل ہے کہ وہ گورنمنٹ سکولوں کے معیار کو بلند کریں تاکہ لوگ پرائیویٹ سکولوں کی طرف دیکھنا بھی بند کر دیں ۔میں تاریخ ادب اردو کا ایک واقعہ وزرائے کرام کی خدمت میں پیش کروں گا ۔صمصمام الدولہ نواب آف لکھنو تالاب کے کنارے چھڑی سے مچھلیوں کے ساتھ کھیل رہے میر تقی میر سے غزل بھی سن رہے تھے۔میر صاحب ہر شعر پر نواب کی طرف دیکھتے ۔آخر میں ان سے رہا نہ گیا انہوں نے کہا نواب صاحب آپ میرے اشعار توجہ سے سماعت نہیں فرما رہے نواب صاحب نے کہا میر صاحب معیاری شعر خود بخود میری توجہ اپنی جانب مبذول کروا لے گا۔اگر گورنمنٹ کے سکول معیاری تعلیم کو یقینی بنالیں تو پرائیویٹ سکولز خو د بخود راہی ملک عدم ہو جائیں گے ۔
مقصد ہو اگر تربیت لعل ©بدخشاں
بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پر تو
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ ،کیا مدرسہ والوں کی تگ و دو
اگر مدرسہ والے میٹرک کے امتحان میں کھلم کھلا نقل کروارہے ہوں اور سوالوں کے جوابات سے بھی نا آشنا ہوں ۔وہ اساتذہ جو صوبہ سندھ میں application کے معنی سے بھی واقف نہ ہوں اور لاڑکانہ کے امتحانی سنٹر میں میڈیا ان کاروائیوں کو قوم کو دکھا رہا ہو تو پھر پرائیویٹ سکول ہی واحد ذریعہ رہ جاتا ہے کہ بچوں کو زیور علم سے آراستہ کر سکیں ۔تاکہ دنیا میں پاکستان کے نام کی وکالت کر سکیں ۔گلوبل ویلج میں معیاری تعلیم کے بغیر ہم کیسے اقوام عالم میں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔حکومتی وزراءپرائیویٹ سکولوں پر جو چاہیں پابندیاں لگائیں لیکن یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ مقابلے کی فضا میں پرائیویٹ سکول ہی بچوں کو معیاری تعلیم دے رہے ہیں ۔اگر حکومت اپنے ملازمین کی 10فیصد تنخواہ بڑھائے تو پرائیویٹ سکولوں کو بھی حق ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کی تنخواہوں میں 10فیصد کا اضافہ کریں اور ظاہر ہے یہ فیسوں کے اضافے پر منتج ہو گا ۔وگرنہ
نہ تڑپنے کی اجازت ،نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاﺅں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے
ضروری ہے کہ ہم گورنمنٹ سکولوں کے معیار کوبلند کرنے کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سکولوں کی بھی حوصلہ افزائی کریں جو تعلیمی خلا کو پر کرنے کے لیئے اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں ۔اچھے نتائج دکھا رہے ہیں۔طلبہ و طالبات میں خود اعتمادی کا جذبہ ابھار کر معیاری قومی قیادت پیدا کر رہے ۔ہمیں تو اسلام نے چین تک کے سفرکا حکم دیا ہے اگر مقصد حصول علم ہو۔(اطلبواعلم ولوکان بصین)۔یہ بھی ظلم عظیم ہے کہ کرپشن نے اعلی سطح کے حکمرانوں سے لے کر حکومتی کارکنان قضا و قدر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔مٹھی گرم کرنے کے بہانے کئی پہلو نکالے جاتے ہیں تا کہ پرائیویٹ سکول خدمت بجا لائیں ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پرائیویٹ سکولوں نے لاکھوں اساتذہ کو روزگار فراہم کر رکھا ہے جو یقینا حکومت کے ہاتھ بٹانے کے مترادف ہے ۔اللہ کرے ہم ملکی ترقی کے لیئے تعلیم کو گورنمنٹ سکولوں اور پرائیویٹ سکولوں کے حسین امتزاج سے فروغ دے سکنے میں کامیاب ہو سکیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...