امریکی اہلکار نے ہمارے دو بندے دن دیہاڑے قتل کر دئیے۔ لوگوں میں سراسیمگی پھیل گئی۔ پوری قوم غصے کی صورتحال میں ششدر رہ گئی۔
اس وقت اگر کوئی چھوٹی موٹی کارروائی ہو جاتی تو یہ نہ ہوتا۔ اب کسی بھی ملک کا کوئی اہلکار کسی بے چارے پاکستانی کو گولیاں مارے گا اور ہم بس دیکھتے رہ جائیں گے۔ اسی ریمنڈ ڈیوس کو کچھ دنوں کے بعد امریکہ میں کسی معاملے میں پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کیا ایسا پاکستان میں ہوسکتا ہے؟ جہاں پاکستانی شہریوں کو کوئی بھی غیر ملکی موت کے گھاٹ اتار دے اور پورے پروٹوکول کے ساتھ اپنے وطن چلا جائے۔
فوری طور پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا۔ صدارت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کی۔ انہوں نے اجلاس میں جو بات کی۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں اس سے بالکل مختلف بات کی جبکہ وزیر خارجہ، چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، مشیر قومی سلامتی اور سول ملٹری حکام نے شرکت کی اور نوازشریف کے الزامات متفقہ طور پر مسترد کر دئیے۔ مگر اجلاس کے بعد وزیراعظم نے کہا کہ میں نوازشریف کے ساتھ کھڑا ہوں۔ نواز شریف ایک طرف اور پوری قوم ایک طرف! لوگ ان سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا وہ واقعی پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ ان کی وزارت عظمیٰ کے صرف پندرہ دن رہ گئے ہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک دفعہ نوازشریف نے کہا تھا اور غالباً ان کی بیٹی مریم نواز نے بات کو آگے بڑھایا۔ میرے پاس بہت سے راز ہیں یہ موقعہ نہ آنے دیں کہ میں ان سے پردہ اٹھائوں تو کیا یہ بیان انہی رازوں میں سے ایک ہے۔ وہ باقی راز بھی بیان کر دیں تاکہ ایک بار ہی قوم اس قومی صدمے کو برداشت کر سکے۔ بار بار پاکستان کے لئے قربانیاں دینے والے محب وطن لوگ ایک دفعہ ہی قیامت کا سامنا کر لیں۔
جب بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو بلوچستان سے گرفتار کر لیا گیا تو سارے ملک میں کھلبلی مچ گئی۔ ملٹری کورٹ نے اسے سزائے موت دی جس پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا۔ نہ پاکستان کے مفاد میں اس معاملے کو سرکاری سطح پر اٹھایا گیا تاکہ بھارت کا منہ کالا ہو۔ سفارتی سطح پر ساری قوم نے احتجاج کیا اور بھارت کی منافقانہ اور بزدلانہ پالیسی پر تنقید کی۔ سب لوگوں نے بھارت کے اس اقدام کی مذمت کی صرف ایک شخص کی زبان پر بھارتی جاسوس کلبھوشن کا نام تک نہ آیا۔ اور وہ نوازشریف ہیں۔ انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم تھے اور تین بار تھے۔
بھارتی وزیراعظم مودی سے ملنے کے اتنے خواہشمند نوازشریف رہتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔مودی بیرون ملک دورے پر تھے اور اس وقت وہ کابل افغانستان میں تھے۔ یہیں انہوں نے پاکستان مخالف بیان بھی دیا مگر نواز شریف نے مودی کو رائے ونڈ بلا لیا اور وہ ویزے کے بغیر رائیونڈ پہنچ گئے۔ یہاں نواز شریف کی نواسی غالباً مریم نواز کی بیٹی کی شادی کی تقریب تھی۔
نواز شریف مودی کی حلف برداری کی تقریب میں بھی پہنچ گئے۔ اہل پاکستان نے بہت بُرا منایا۔ مگر نواز شریف عوام کے جذبات اور ردعمل کی کب پروا کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ وزیراعظم کس طرح بنتے ہیں۔
پاکستان میں رہنے والے محب وطن لوگوں کے جذبات بھارت کے لئے کیا ہیں۔ لوگ کرکٹ کے کھیل کو پسند کرتے ہیں۔ لیکن ان کواس کھیل میں بھی بھارت سے شکست قبول نہیں۔ پاکستانی لوگوں کے جذبات یہ ہیں کے ہماری کرکٹ ٹیم ساری دنیا سے ہار جائے مگر بھارت سے نہ ہارے۔ ان کے لئے وہی میچ اہم ہے جو بھارت کے ساتھ کھیلا جائے اور بھارت پاکستان سے ہار جائے۔
ایک بات جو مجھے تڑپاتی ہے اور میں غم و غصے سے لبالب بھر جاتا ہوں کہ ہماری بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ امریکہ نے جو ستم توڑا اس کے خلاف کوئی احتجاجی بیان حکام کی طرف سے نہ آیا اور نہ یہ بات سامنے آئی کہ اس پر مقدمہ اپنے ملک پاکستان چلایا جائے گا۔ اسے فوراً امریکہ واپس بھجوائے۔ اس کے لئے عافیہ کی دردمندانہ اور دلیر بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ایک مہم پاکستان میں چلائی۔ صحافت والوں نے حمایت کی مگر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ حکام میں سے کسی نے رسمی طور پر بھی یہ مطالبہ نہیں کیا ۔ پاکستان والوں کے لئے سفارتی حقوق نہیں ہیں۔
امریکہ اپنے ایک آدمی کے لئے اتنا بے قرار ہوتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے بعد کرنل جوزف کے لئے بھی کیا کچھ ہوتا رہا۔ اب ایک اور پریشان کر دینے والی خبر یہ ہے کہ پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کرنے کے لئے زور ڈالا جا رہا ہے۔ شکیل آفریدی امریکہ کے لئے جاسوسی کرتا رہا جب ایبٹ آباد اسامہ بن لادن کے روپوش ہونے کی خبریں چل رہی تھیں۔ امریکہ نے کسی کی اجازت کے بغیر افغانستان سے اپنی فوج بھیج کے اسامہ بن لادن کو اغوا کیا گیا اور پھر امریکہ پہنچا دیا گیا۔ یہ بات بڑی شرمناک ہے۔ پاکستانی حکومت یہ کام نہ کرے۔