آپ نظریاتی ہو چکے ہیں لیکن نظریاتی ہوتے ہی آپ نے دل دکھانے کو جو بیانات داغے ہیں وہ ٹھیک نشانے پہ لگے ہیں لیکن اس نے مودی جی کو تقویت اور پاکستان کے دامن کو داغدار کیا ہے- آپ کا ملکی سلامتی کونسل کے اعلانیہ کو مسترد کردینا سب کے لئے تشویشناک ہے باقی آپ سیاست دان ہیں آپ سیاست کے اسرارورموز بہتر جانتے ہیں لیکن سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار احمد صاحب نے آپ کے نظریے کی جو تعریف کی ہے وہ شاید آپ کے بہت سے پرستاروں کو پسند نہ آئے لیکن سچ تو یہی محسوس ہوتا ہے – بہت سے ن لیگی ممبران ِاسمبلی تذبذب کا شکار چوہدری نثار صاحب کے بیان کی حمایت کرتے ہی نظر آتے ہیں تو میں سوچتا ہوں کہ شاید یہ آپ کی جماعت نہیں فقط آپ کا اور آپ کے چند رفقائ کا نظریہ ہے- پاکستان کو دہشت گردی کی سپورٹ کرنے کے الزام میں امریکہ اور اس کے حمایتیوں نے آبزرویشن پہ رکھا ہوا تھا - پاکستان بدستور اپنا امیج بہتربنا رہا تھا اور دنیا کے ممالک اسے سراہ بھی رہے تھے ایسے میں آپ نے کس کی خدمت کی ہے وہ تو آپ ہی جانتے ہیں لیکن اس انٹرویو کے بعد پاکستان کا رستہ کیا ہو گا اس کا فیصلہ ابھی باقی ہے-مجھے جناب ذوالفقار علی بھٹو کال کھوٹھری میں نظر آتے ہیں – پھانسی پہ جھول جانے کے باوجود ایک ایسا بیان جوانہوں نے جیل سے ملکی سلامتی اور مفاد کے منافی دیا ہو ڈھونڈنے سے بھی ہمیں نہیں ملے گا- بہت سے ملکی رازوں کے امین تو وہ بھی تھے – ایک آمر سے واسطہ تو ان کا بھی تھا – کوئی قطری خط یا پانامہ کا ہنگامہ ان کے جانے کے بعد بھی ان کی باقیات سے نہ نکلا – پھر میری آنکھوں کے سامنے بلاول کو اٹھائے اور بختاور کو انگلی پکڑائے بے نظیر بھٹو کا تصور بھی ہے – مگر آپ تو قائد اعظم ثانی بھی کہلاتے ہیں اور اس دور کے نیلسن منڈیلا بھی- آپ کے پارٹی کے دوسرے لیڈر اسے میڈیا کی غلطی کہتے ہوئے توڑ مروڑ کے پیش کرنے کا جواز دیتے ہوئے ہلکان ہوئے جاتے ہیں لیکن ایک آپ ہیں کہ ہر چیز کی نفی کرتے ہوئے بس ایک ہی رٹ پہ ڈٹے ہوئے ہیں- ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ اس موقع پہ کیا ضرورت پیش آئی تھی کہ آپ نے ملتان میں اپنے پسندیدہ صحافی کو بلا کے وہ کہہ ڈالا کہ جس کا چرچا کرتے ہوئے بھارتی میڈیا کی زبان منہ میں نہیں پڑ رہی ہے- جب بھارتی میڈیا اپنی سچائی اور پاکستان کو دہشت گردی کی حمایت کرنے میں موردِ الزام ٹھہراتا اور آپ کے بیانات دکھاتا ہے تو میرے زخموں میں ملا جانے والا نمک اور الفاظ کے تیر دل میں پیوست ہوتے محسوس ہوتے ہیں- آپ شاید اپنا کہا بھول جائیں یا اس کو توڑ مروڑ کے پیش کرنے پہ صحافت کو ایک دن آڑے ہاتھوں لیں لیکن آپ کی بوئی فصل کا کفارہ شاید سرحدوں پہ کھڑے نوجوان اپنی جانوں سے ادا کریں گے اور بائیس کروڑ اپنی محرومیوں سے – آپ کے اس یک طرفہ بیانیئے نے ہمیں مجرم بنا کے اقوامِ عالم میں کھڑا کردیا ہے- بیشتر غیرملکی اخبارات میں آپ کے بیان کو شہ سرخیوں میں لگایا گیاہے - کاش آرمی سکول کے بچے بھی آپ کے انٹرویو کا حصہ ہوتے جن کی مائیں آج بھی روتی ہیں – وہ بچے جن کے بہیمانہ قتل کے تانے بانے ملک سے باہر اور رائ سے جا ملے تھے – کاش کرنل پروہت کا بھی ذکر ہوتا جس کے ظلم کا شکار سمجھوتہ ایکسپریس میں زندہ جلنے والے مسافر آج بھی اپنے عزیز و اقارب کو نہیں بھولتے- کاش بلوچستان میں خون کی ندیاں بہاتے اور نفرتوں کی فضا کو ابھارتے غیر ملکی ہاتھ بھی آپ کی باتوں کا محور ہوتے- کراچی کی ایک تنظیم کے ساتھ جب رائ کی در اندازی کے ثبوت ملتے تھے تو آپ کیوں چپ تھے- کلبھوشن کو تو شاید آپ سلامتی کونسل کے ہونے والے اجلاس میں بھی بھول گئے تھے – کشمیری ماؤں بہنوں کی عصمت دری اور جوانوں کے قتل ِ عام پہ تو غیر ملکی مبصر بھی اپنی رپورٹ پیش کرتے غمزدہ ہوتے جاتے ہیں اور ان کے بہتے آنسو بھارتی بربریت کا دل کھول کے پردہ چاک کرتے ہیں لیکن آپ اپنے بھارتی دورے پہ کشمیری راہنماؤں سے ملنے کی بجائے اداکاراؤں سے ملنے کو ترجیح دیتے ہیں– جہاں تک ممبئی حملے کا تذکرہ ہے تو ہمسایہ ملک تو کوئی ثبوت پاکستان کو دے نہ سکا- اجمل قصاب کو پاکستانی سفارت کاروں تک رسائی سے انکاری بھارتی حکومت اور اپنی جیلوں میں ایک نا انجانی سی جلدی میں اسے موت کیگھاٹ اتار دینے والے آج جب اپنے ان نا روا اقدامات سے اپنی اہمیت کھو تے جارہے تھے اور انہیں اپنے ہی ملک میں کشمیریوں پہ مظالم کی پاداش میں ایک مزاحمت کا سامنا تھا تو آپ کے ان الفاظ نے ان کی اس تحریک کو کمزور کردیا ہے-افضل گورو جیسے شہیدوں کی قبروں پہ چھائی تاریکی اور بڑھ گئی ہے کہ جن کے موقف اور قربانی پہ انہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے- شاید میں نظریاتی کی تعریف کرتے کہیں بھول گیا ہوں اور مجھے آپ کے نظریے کی تشریح کے لئے پھر چوہدری نثار کے الفاظ کا سہارا لینا پڑے گا کہ آپ نظریاتی ہوئے کسی اور کے نقش ِ قدم پہ چلتے ہوئے ایک تاریخ لکھ رہے ہیں- آپ ملک کے ایک مقبول لیڈر ہیں شاید اب آپ کے سارے دوستوں کا نظریہ ہی تبدیل ہوگا یا وہ اس نظریے سے کنارہ کش ہو جائیں گے یہ تو وقت ہی فیصلہ کرے گا-مجیب الرحمان کی حب الوطنی پہ آپ مہر تو لگا چکے ہیں لیکن کیا اب آپ کا رستہ بھی وہی ہوگا اس کی وضاحت کی ضرورت ہے- کیا اس نظریے کی حمایت میں آپ کے بچے پاکستان کی شہریت سے الگ ہو جائیں گے اور آپ کو دوسری ماؤں کے جائیوں کو لاٹھیوں کا سامنا کرنے پہ اکسانا پڑے گایا آپ کے اس نظریے کے دفاع میں آپ کے نورِ چشمی شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے- آپ اتنا عرصہ صاحبِ اقتدار رہے – آپ کی ایوانوں میں اکثریت تھی لیکن اب آپ پھر اگلے الیکشن میں بھاری مینڈیٹ کی بات کرتے ہیں تو یہ واضح بھی کر دیجیئے کہ پہلے ان قوانین کو اٹھا باہر پھینکنے پہ آپ کو کیا مانع تھا – یا پھر کوئی بیان جاری کرنے سے پہلے کسی سے مشورہ ضرور کر لیا کیجیئے کیونکہ خفت و رسوائی ملک کی ہی ہوتی ہے-