کھلتے ہوئے پاکستان میں حبیب جالب کی یاد!!!

کرونا پھیل رہا ہے اور پاکستان کھل رہا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت فیصلہ کر چکی ہے کہ آنے والے دنوں میں کرونا کے ساتھ ہی معمولات زندگی چلائے جائیں گے۔ وزیراعظم عمران خان تو ابتدا ہی سے لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تھے وہ تو صوبے نے اپنے طور پر ہی موثر یا غیر موثر لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرتے رہے جس کے بعد وفاقی حکومت نے بھی ان اقدامات کی تائید کی اور قومی سطح پر لاک ڈاؤن کا نافذ کیا لیکن یہ صورتحال بھی زیادہ دیر تک برقرار نہ رہی۔ مالی اعتبار سے انتہائی کمزور یعنی یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں اور چھوٹے چھوٹے کاروبار سے منسلک افراد کی طرف سے مسلسل دباؤ بڑھنے کے بعد حکومت نے مرحلہ وار موثر یا غیر موثر لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کر دیا اور اب ہر دوسرے دن کسی نہ کسی شعبے کو کھولنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔
اب حکومت پبلک ٹرانسپورٹ اور شاپنگ مالز کو کھولنے کی طرف جا رہی ہے۔ شاپنگ مالز بھی کھل رہے ہیں دیگر شعبوں کو بھی کھولا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی کرونا متاثرین میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور شاپنگ مالز کھلنے کے بعد حکومت کے لیے بظاہر سب سے مشکل فیصلہ تعلیمی اداروں کو کھولنے کا ہو گا۔ تمام ایسے شعبے جہاں لوگ بڑی تعداد میں جمع ہو سکتے ہیں ان کے کھلنے کے بعد کرونا کے پھیلاؤ کے حوالے سے کسی قسم کی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ حکومت احتیاطی تدابیر پر عمل کے پیغامات جاری کر رہی ہے لیکن اس عمل سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
چند روز قبل انہی صفحات پر لکھا گیا تھا کہ ہمیں کرونا کے ساتھ جینے کے آداب سیکھنا ہوں گے کیونکہ یہ وائرس ایسے نہیں جائے گا اور حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ موثر لاک ڈاؤن یا کرفیو کے ساتھ آگے بڑھ سکے۔ یہ بھی درست ہے کہ اس حوالے سے موثر پالیسی بھی ترتیب نہیں دی جا سکی بالخصوص جو سیاسی نظام یا حکومتی نظام رائج ہے اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کا مناسب استعمال نہیں کیا گیا جس انداز میں انتخابی دفتر چلائے جاتے ہیں اسی انداز میں لاک ڈاؤن متاثرین کی مدد کی جا سکتی تھی۔ اس مہم میں منتخب اراکین کا حلقوں میں موجود رہنا مہم کو کامیاب بنا سکتا تھا۔ جس طرح کا لاک ڈاؤن کیا گیا ہے اس کے مقاصد حاصل نہیں ہو سکے اس دوران مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے اور کرونا وائرس کی وجہ سے جانی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔ غیر واضح پالیسی کی وجہ سے ہمیں دوہرے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس دوران عوامی ردعمل، کاروباری طبقے کی پریشانی اور مطالبات کے بعد یہ واضح ہو چکا ہے کہ وفاق بھی لاک ڈاؤن نہیں چاہتا، کوئی فیکٹریاں، مارکیٹیں بند کرنے کو تیار نہیں ہے اور عوام نے احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کرنا تو حکومت سب کچھ کھول دے اور زندگی کو معمول پر آنے دے۔ جب کوئی بات سننے کو ہی تیار نہیں ہے اور حکومت سختی نہیں کر سکتی تو آدھا تیتر آدھا بٹیر رہنے کا کیا فائدہ ہے۔ جو جان لیوا وائرس کو سنجیدہ نہیں لے رہے خود خمیازہ بھگتیں۔
اس وائرس کے دوران استعمال ہونے والے فنڈز کا حساب رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ اس دوران اربوں روپے کے جاری ہونے والے فنڈز میں خوردبرد یقینی ہے۔ کرونا اور رمضان المبارک کے دوران ناجائز منافع خوری اور لاک ڈاؤن کے دوران چوری چوری کاروبار کرنے والی قوم سے یہ توقع کرنا کہ کرونا فنڈز ایمانداری سے استعمال ہوں گے ممکن نہیں ہے۔ سید اسد اللہ شاہ غالب لکھتے ہیں کہ 1993 میں جب ملک اللہ یارخان مرحوم آف کھنڈہ اٹک ہمارے ممبر قومی اسمبلی بنے تو انہوں نے سکولوں کی تعمیرات کیلئے جو فنڈز منظور کرائے۔ سرکاری احکامات کیمطابق ایک کمرہ اٹھاسی ھزار روپے میں بننا تھا،جبکہ ملک اللہ یارخان نے مطلوبہ ریٹ چیک کرنے کیلئے سرکاری پیمائش و پیمانے اور معیار کے مطابق اپنے ذاتی وسائل سے ایک کمرہ تعمیر کروایا،یہ سن کر آپ حیران ھوجائیں گے کہ اس کمرے کی تعمیر پہ صرف اڑتیس ھزار روپے لاگت آئی۔ملک اللہ یارخان مرحوم نے متعلقہ وزارت کے ذمہ داران کو بتایا کہ ھر کمرے پر حکومتِ پاکستان کو پچاس ہزار روپے کا نقصان پہنچایا جارھا ھے۔خدارا ہوش کے ناخن لیں اور پاکستان کو اتنے بڑے نقصان سے بچائیں۔اسی سلسلے میں بات چیت جاری تھی کہ اس دوران اسمبلی توڑ دی گئی.یوں یہ فنڈز واپس سرکاری خزانے میں جمع ھوگئے. چوہدری صاحب یہ تھی شرافت، وضعداری، اصول، عزتِ نفس، سچ،اور دیانتداری کے سنہرے اصولوں پہ قائم اصل سیاست ہے۔ شاہ صاحب نے تو یہ واقعہ انیس سو ترانوے کا لکھا ہے۔ ان دنوں حالات ماضی سے بھی زیادہ خراب ہیں وقت کے ساتھ ساتھ اشرافیہ میں مال جمع کرنے کی ہوس میں اضافہ ہوا ہے۔
ان حالات میں فنڈز کی شفاف انداز میں تقسیم کی تمام تر ذمہ داری وزیراعظم عمران خان پر ہے وہ متعدد بار اس کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ بحیثیت‘ لیڈر وہ ذمہ دار ہیں۔ وزیراعظم کو کمزور طبقے کی فکر ہے اور یہ سب کو ہونی چاہیے۔ ستم ظریفی ہے کہ یہی طبقہ سیاست دانوں کو اقتدار کے ایوانوں پہنچاتا ہے اور یہی طبقہ ہر دور میں پستا رہا ہے۔ اسی کے سر پر سیاست ہوتی ہے، اسی طبقے کا نام لے کر فنڈز جاری ہوتے ہیں، اسی طبقے کے نام پر سارا کھیل کھیلا جاتا ہے اور یہی طبقہ معیاری زندگی گذارنے سے محروم ہے۔ ان حالات پر شاعر عوام عظیم حبیب جالب فرماتے ہیں بپا ہے کربلا،مہنگائی ہے، تخریب کاری ہے وزارت پھر بھی قائم ہے حکومت پھر بھی جاری ہے حکومت ذات پر جو خرچ کرتی ہے انہیں دے دے کہ جن کے دن گراں کٹتے ہیں،جن پر رات بھاری ہے کاش کہ کبھی کسی نظام میں کسی حکومت میں اس طبقے کے حقیقی نمائندے شامل ہوں اور ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہوں۔ اب تک کی کوششیں تو ناکام نظر آتی ہیں لیکن کوشش جاری رکھنے چاہیے۔ عوام کو چند مفاد پرست خاندانوں سے نجات ملے اور حقیقی معنوں میں عوامی خدمت گار اقتدار میں آئیں اور فقیروں کے دن بھی پھر جائیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...