امریکہ پورے 20 برس تک افغانستان میں تباہی اور بربادی پھیلانے کے بعد گزشتہ برس 15اگست کو مایوسی کے عالم میں وہاں سے کیا نکلا اس کے بعد لگتا ہے کہ پوری دنیا افغانیوں کو سزا دینے پر تلی ہوئی ہے کہ انہوں نے امریکہ کو کیوں ناراض کیا۔ یہ ناراضگی نہیں تو اورکیا ہے، کسی کوپرواہ ہی نہیںکہ افغانستان میں افلاس و غربت نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ 2کروڑ سے زیادہ آبادی جوکہ افغانستان کی کل آبادی تقریباً 4کروڑ کا نصف بنتی ہے، کے پاس 24گھنٹوں میں ایک وقت کیلئے بھی کھانے کو کچھ نہیں۔ بھوک اور فاقوں سے بے حال افغان خاندان بیرونی مالدار لوگوں کو اپنی 3 سے 10برس تک کی بیٹیوں کوکام کاج کیلئے صرف اس لیے بیچنے پر مجبور ہیں کہ ایک بیٹی کو بیچ کر باقی گھرانے کو فاقوں کی موت سے بچایا جاسکے ۔ اس سلسلے میں بی بی سی ،سی این این اور الجزیرہ ٹی وی چینل بھی اپنی رپورٹس میں افغانیوں کے سروں پر بھوک کی لٹکتی ہوئی تلوارکی تفصیل دے چکے ہیں لیکن دنیا کی سنگدلی ہے کہ ختم ہونے کونہیں آرہی۔امریکی عوام کو ان کے حکمران ماضی میںیہی سمجھاتے اور بتاتے رہے ہیں کہ ان سے وصول کیے گئے ٹیکسوں سے افغانستان کی تعمیر و ترقی پر کثیر سرمایہ خرچ کیا جارہا ہے ۔ امریکی عوام کے علاوہ اقوام عالم بھی یہی سمجھتے رہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانیوں کی قسمت بدل کے رکھ دیں گے۔ 20برس کا عرصہ کم نہیں ہوتا ، انخلاء کے بعد امریکی حکومت نے صحافیوں کی طرف سے پوچھے گے سوالات کے جواب میں بتایا کہ افغانستان پر گذشتہ20سال میںپونے تین کھرب ڈالر خرچ کیے جاچکے ہیں یہ پیسے کہاں گئے ۔ کون کھا پی گیا ؟ اس بارے میں امریکہ میں اب نہ کوئی سوال کر رہا ہے نہ ہی کوئی فکر مند ہے کہ اتنی خطیر رقم سے افغانستان میں چھوٹے بڑے ہر شہر کو دنیا کے جدید ترین ترقی یافتہ شہروں میں تبدیل کیا جاسکتا تھا۔ وہاں معشیت و کاروبار کو اس انداز سے وسعت دی جاسکتی تھی کہ آج افغانی عوام دنیا سے امداد کی امید لگانے کی بجائے الٹاامداد دینے والے ملکوں میں شامل ہوتے۔
افغانستان میں تعمیر کیے جانے والے جدید ہسپتال پورے وسطی ایشیاء میں طبی سہولتوں کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہوتے، وہاں کے جدید تعلیمی ادارے دنیا بھر میں طالبعلموں کیلئے باعث کشش ہوتے۔ افسوس یہ سب کچھ دعووں تک محدود رہا تو پھر ایسا کیا ہوگیا کہ امریکہ نے افغانستان سے رخصتی کے بعد اپنے بینکوں میں جمع افغانستان کے 9 ارب ڈالر ضبط کر لیا۔ یہ انکشاف دنیا کیلئے بذات خود حیران کن تھا کہ افغان حکومت اپنے انتظامی معاملات چلانے ، فوج و دیگر سرکاری اداروں میںملازمین کو تنخواہیں دینے اور بیرونی دنیا سے خریداری و کاروباری ضروریات کی خاطر رقوم کی ادائیگی کیلئے امریکہ کی محتاج تھی کیونکہ افغانستان کا خزانہ امریکہ میں اور اس کی کنجی وائٹ ہاؤس کے پاس تھی۔پھر امریکہ کو یہ سچ تسلیم کرنا چاہئے کہ 2001ء میں دہشتگردی کے خلاف جنگ بہانہ تھی ،امریکیوں کا اصل مقصد افغانستان پر قبضہ کرنا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکیوں نے 20سالوں تک افغانستان کی تعمیر نو اور ترقی کیلئے وہاں ڈالر خرچ کرنا غیر ضروری سمجھا کیونکہ مفتوحات سے لوٹ مار کی جاتی ہے وہاں سرمایہ کاری نہیں کی جاتی ۔ افغانیوں کا اجتماعی قصور یہ ہے کہ انہی کے اندر سے کچھ غیور افغانی امریکی غلامی قبول کرنے کو تیار نہیں تھے، نہ ہی وہ امریکہ کو اپنا حاکم تسلیم کرتے تھے ۔ گو افغان عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے امریکیوں نے افغانستان میں حامد کرزائی یا اشرف غنی جیسے افراد کو حاکم بنارکھا تھا ۔ دنیا کو دھوکہ دینے کیلئے وہاں انتخابات کا ڈھونگ بھی رچایا جاتا رہا لیکن ان کٹھ پتلی حکومتوں کے پاس صرف لوٹ مار ، رشوت خوری اور پاکستان پر الزام تراشیوں کے اختیارات تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کابل پر امریکہ کی طرف سے مسلط کیے گئے حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں کی بدولت وہاں کے عوام امریکیوں کے خلاف لڑنے والے افغان طالبان کے طرفدار ہوتے چلے گئے۔افغانستان میں عوام کی سطح پر افغان طالبان کو حاصل ہونے والی یہی حمایت ہی تھی جس کی بدولت وہ دنیا کی سب سے بڑی قوت اور اس کے اتحادیوں کو آخرکار افغانستان سے بھگانے میں کامیاب ہوگئے۔
امریکی افغانستان سے انخلاء کے وقت خوش تھے کہ ساڑھے تین لاکھ کی نفری پر مشتمل بھارت کے ساتھ مل کر انہوںنے جو مقامی فوج افغانستان میں کھڑ ی کی تھی اور اسے جدید امریکی اسلحہ سے لیس بھی کیا تھا ، وہ افغانستان پر کسی صورت افغان طالبان کو قابض نہیں ہونے دیگی۔ امریکی خواہشات کی یہ عمارت اس وقت زمیں بوس ہوگئی جب 15اگست 2021ء کو ہی افغان طالبان بغیر گولی چلائے کا بل میں داخل ہوئے اور انہوںنے پورے افغانستان کاکنٹرول حاصل کرلیا۔ یہیں سے افغان عوام کیلئے ایک نئی طرح کی مشکل کا آغاز ہوا۔ افغانستان میں موجود خوراک اور غذا کے ذخائر جلد ختم ہوگئے ۔ افغان طالبان کی حکومت کے پاس پیسے نہیں تھے کہ وہ عوام کیلئے بیرونی دنیا سے اشیاء خوردونوش ، غلہ اور ادویات کی خریداری کر سکتے۔ اقوام متحدہ دفاتر کا بل میں امریکی حکم پر غیر فعال کیے جاچکے تھے ۔ امریکی اجازت کے بغیر کوئی ملک افغانیوں کو امداد دینے کو تیا ر نہیں تھا۔ابتداء میں چین ، روس، سعودی عرب و کچھ اسلامی ممالک نے تھوڑی بہت امداد ضرور کی لیکن اس سے ملک کا نظام نہیں چلایا جاسکتا تھا ۔ نہ ہی عوام کی روزمرہ ضروریات پوری کی جاسکتی تھیں ۔ امریکیوں نے این جی اوز کے ذریعے امداد فراہم کرنے کی حامی بھری تو افغان طالبان نے ان کی پیشکش یہ کہتے ہوئے مسترد کردی کہ امریکی و مغربی این جی اوز امداد کے بہانے اپنی مادر پدر آزادتہذیب اور اسلام مخالف نظریات کے ساتھ امداد فراہم کرتے ہیں،جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اپنی معاشی مشکلات کے باوجود پاکستان جس حد تک مدد کرسکتا تھا پچھلے کئی ماہ سے کرتا چلا آرہا ہے ، لیکن یہ ناکافی ہے جبکہ روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے امریکہ اور مغربی ممالک کی تمام تر توجہ یوکرائن کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی اور جنگ کوطول دینے تک محدود ہے ۔
دوسری طرف سنگین صورت حال یہ ہے کہ یوکرائن گندم و دیگر اجناس کی صورت میں دنیا کو 40 فیصد خوراک مہیا کرنے والا ملک ہونے کے باوجود ا س سال گندم کاشت ہی نہیں کرسکا ۔ جس کی بدولت پوری دنیا خوراک میں کمی کی لپیٹ میںآنے والی ہے لیکن افغانستان کی صور تحال مختلف ہے ، وہاں بھوک اور فاقہ کشی دہشتگردوں کو ایک با ر پھر منظم ہونے کا سبب بن سکتی ہے ۔ بھارت افغانستان سے اپنے کردار کے خاتمہ کے بعد سے تلملا رہا ہے اسے بھی موقع ملے گا کہ وہ ٹی ٹی پی اور بلوچ دہشت گردوں کے ساتھ اپنے رابطے بحال کرے اور پاکستان کی مغربی سرحد سے پاکستان کے خلاف اپنے مذموم عزائم نئے سرے سے بروئے کار لائے۔ افغانستان میں دہشتگردی نے زور پکڑا تو اس کے اثرات صرف پاکستان تک محدود نہیںرہیں گے بلکہ دنیا بھی غیر محفوظ ہوجائیگی اس کا تدارک دنیا کی توجہ افغانستان میں خوراک کے سنگین بحران کی طرف دلاکر ہی کیا جاسکتا ہے۔
افغانستان میں بھوک اور فاقوں کے بڑھتے ہوئے سائے !
May 16, 2022