اس وقت بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں پانی کی کمی کی وجہ سے عوام شدید مسائل کا شکار ہیں۔ پانی کی قلت ایک طرف تو عوام کے مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہے اور دوسری جانب صوبوں کے مابین بدگمانیاں بھی پیدا ہورہی ہیں۔ سندھ کے وزیر آبپاشی جام خان شورو نے پنجاب پر پانی چوری کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں پوری مقدار میں پانی نہیں پہنچ رہا۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ تونسہ سے67 ہزار کیوسک پانی چھوڑا گیا، تو اس مطلب یہ ہے کہ سندھ کا پانی گڈو اور تونسہ کے درمیان ہی غائب ہوا۔ پانی چھوڑنے کے حوالے سے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے غلط بیانی کی یا پانی ریلیز نہیں کیا۔ سندھ اور بلوچستان میں پانی کا بحران شدت اختیار کرگیا، دریائے سندھ خشک ہوگیا اور نہروں میں پانی نہ ہونے سے کھڑی فصلوں کا نقصان ہوگیا۔ سندھ میں پانی کی کمی کا جائزہ لینے پاکستان واٹر کمیشن کے جوائنٹ سیکریٹری مہر علی شاہ نے سکھر بیراج کا دورہ کیا۔
پانی کی قلت سے جہاں اور بہت سے مسائل پیدا ہورہے ہیں وہیں ملک کے مختلف علاقوں میں جاری آبی بحران کے پیش نظر ماہرین کا کہنا ہے کہ قلت آب سے خوراک کی کمی کا خطرہ ہے۔ اندریں حالات، حکومت کے لیے یہ بہت مشکل ہو جائے گا کہ وہ مختلف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو برقرار رکھ سکے کیونکہ یہ معاشیات کا سیدھا سا اصول ہے کہ اگر کسی شے کی رسد کم ہو جائے اور اس کی طلب بڑھ رہی ہو تو اس کی قیمت میں اضافہ ناگریز ہو جاتا ہے۔ ایک طرف ملک کے اندر پانی کی کمی سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں ماہرین آگاہ کررہے ہیں تو دوسری جانب اقوام متحدہ کے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان کو دنیا کے ان تئیس ممالک میں شامل کیا گیا ہے جنھیں گزشتہ دو برس سے خشک سالی کا سامنا ہے۔ ’گلوبل لینڈ آؤٹ لک‘ نامی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے علاوہ جن دیگر بائیس ممالک کو خشک سالی کا سامنا ہے ان میں افغانستان، ایران، عراق اور امریکا شامل ہیں۔ رپورٹ میں 2050ء کے حالات کے بارے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ تب تک مختلف خطوں اور ممالک کو پانی کی قلت کی وجہ سے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور ان سے بچنے کے لیے کون سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں پانی کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ایک عرصے سے نئے ڈیم بنانے کی بہت سی تجاویز تو زیر غور ہیں اور کئی پراجیکٹس پر کام بھی جاری ہے لیکن تاحال کوئی ایسا بڑا منصوبہ مکمل نہیں ہو پایا جس سے ان مسائل پر قابو پایا جاسکے۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہر حکومت اپنی سیاسی مفادات کے تحفظ اور عوام میں مقبول ہونے کے بعض ایسے اعلانات کرتی ہے جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ عوام بیانات سے خوش ہو جاتے ہیں لیکن مسائل اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم جیسا اہم منصوبہ ہمارے ملک میں ایک سیاسی مسئلہ بن کر رہ گیا ہے، لہٰذا کوئی بھی حکومت اس کی تعمیر کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرسکتی۔ اس حوالے سے صوبوں کے درمیان جن ہم آہنگی اور یکجہتی کی ضرورت ہے وہ سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ ایسے حالات میں عوامی مسائل بس سیاسی تقریروں میں ہی حل ہوسکتے ہیں اور ایسا ہی ہورہا ہے۔
مطلوبہ تعداد میں ڈیموں کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں پانی کے کمی مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب کا بھی عوام کو سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس وقت بھی مختلف کے مختلف حصوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ سے عوام بے حال ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، کراچی میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 6 سے 14 گھنٹوں تک پہنچ گیا ہے جبکہ لاہور سمیت پنجاب بھر میں بجلی کی طلب بڑھنے سے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھ گیا ہے۔ بجلی کی 2 سے 3 گھنٹے کی بندش کے علاوہ ٹرپنگ بھی جاری ہے جس سے شہری شدید کوفت کا شکار ہیں۔ پشاور کے شہری علاقوں میں 6 گھنٹے اور دیہی علاقوں میں 16 گھنٹے بجلی کی بندش کی جا رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی فضل الٰہی پشاور کے رحمان بابا گرڈ سٹیشن میں گھس گئے اور گرڈ سٹیشن بند کر دیا۔ فضل الٰہی نے کہا کہ حکام غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کر رہے ہیں۔ عوام کو ریلیف دینے کے لیے خود گرڈ سٹیشن گیا اور بجلی بحال کردی۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو یا پانی کی قلت سے پیدا ہونے والے دیگر مسائل، ان سب کا حل ایک ہی ہے کہ حکومت اس مسئلے پر انتہائی سنجیدگی سے توجہ دے اور اسے ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ایک ایسی قومی پالیسی بنائی جائے جس میں ملک کی تمام انتظامی اکائیوں سے ماہرین کو شامل کیا جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کرلیا جائے کہ کوئی اگلی حکومت اس پالیسی پر عمل درآمد میں رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گی۔ جس تیزی سے پاکستان میں پانی کی قلت اور اس سے جڑے ہوئے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے آنے والے برسوں میں یہ معاملہ مزید شدت اختیار کر جائے گا۔ اس پر قابو پانے کے لیے تمام سیاسی قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اپنے سیاسی اور گروہی مفادات کو ایک طرف رکھ کر صرف ملک اور عوام کے بہتر مستقبل کے لیے ایک قومی پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔