بھنور

پاکستان میں پچھلے کئی سالوں سے موسمی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے لیکن قومی سطح پرکہیں ایسی کوئی پلاننگ سامنے نہیں آرہی جس کے تحت ہم یہ امید کر سکیں کہ آنے والے چند سالوں میں پاکستان میں گرمی کی اس یلغار کو روکا جاسکے گا یا کچھ کمی ہی ممکن ہو پائے گی ۔انفرادی طور پر اور حکومتی حکم ناموں کے تحت ملک بھر درخت ہر سال ہی لگائے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی ہے کہ ان درختوں کے لگانے سے لے کے بڑے کرنے تک کوئی واضع اور قابل عمل حکمت عملی اختیار نہیں کی جاتی ۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر سال لگنے والے پودے درخت بننے سے پہلے ہی کسی جانور یا جانور نما انسان کے ہاتھوں ختم ہوجاتے ہیں ۔پاکستان میں کبھی ہم سنتے تھے کہ چار موسم ہوتے ہے ۔بہار ،خزاں،گرمی سردی ،لیکن اب لگتا ہے کہ پاکستان میں صرف دو ہی موسم باقی بچیں گے ۔گرمی اور سردی۔ مارچ سے اکتوبر تک موسم گرم رہتا ہے اور پھر اکتوبر سے فروری کے آخری دنوں تک موسم سرد تر رہنے کے بعد بہت تیزی سے گرم ہوجاتا ہے ۔اسے وقت میں شجر کاری اور سونای ٹری سے آگے بڑھ کے بہت کچھ سوچنے کا وقت ہے ۔ایک طرف تھر اور چولستان میں انسان اور جانور گرمی کی شدت اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے مشکل میں ہیں تو دوسری طرف گلیشئر پگلنے سے پہاڑی علاقوں میں رہنے والوں کی مشکلات بڑھ رہی ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے قومی سطح پر کچھ ماہرین کے ساتھ ایک تھنک ٹینک بنایا جائے اور پھر کچھ ایسے لوگ بھرتی کیے جائیں جو ملک بھر میں سروے کریں اور جہاں جہاں زمین غیر آباد ہے وہاں موسموں کے مقابل کھڑے ہونے والے اور جلد بڑے ہونے والے درخت لگائے جائیں ان درختو ں کو پانی،کھاد کے ساتھ ساتھ ان کی مناسب دیکھ بھال کا طریقہ کار طے کیا جائے۔ہر دو مہینے بعد ان درختوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے اور جہاں درخت اچھے انداز میں پروان چڑھ رہے ہوں وہاں کے ملازموں کو اعلی اعزازات سے نوازا جائے۔ملک بھر میں ہاوسنگ سوسوئٹی بنانے پر پابندی لگادی جائے۔جو ہاوسنگ سوسائٹیز بنی ہوئی ہیں وہاں سڑکوں کے کناروں اور پارکوں میں مناسب فاصلوں پر پَھل دار،پُھول دار اور گھنے سائے والے درخت لگانے کے سخت احکامات جاری کیے جائیں۔زرعی زمینوں کی نشاندہی کی جائے اوربنجر زمینوں کو آباد کرنے کے لیے فنڈز جاری کیے جائیں۔گاوں میںنمبرداری نظام بحال کیا جائے ۔نمبردار کو اختیارات دئیے جائیں اور پابند کیا جائے کہ وہ گاوں کی غیر آباد زمین اور کچے پکے رستوں کے ساتھ ساتھ درخت لگوائے گا اور ان کی دیکھ بھال سے انہیں بڑا کرنے کا ذمہ داری لے۔علما کرام ،استاتذہ کرام اور موٹیویشنل سپکیرز خاص تیاری کے ساتھ شجر کاری کی اہمیت پر بیانات دینے شروع کریں۔ہر بندہ درخت لگائے۔اپنے لیے اپنوں کیلئے اپنے وطن کیلئے۔ اپنے فوت شدگان کیلئے  ،اس دنیا کو جنت بنانے کیلئے اور جنت میں گھر بنانے کیلئے۔ پاکستانی سیاست پہ بہت کچھ لکھنے کو دل کر رہا ہے لیکن کیا کروں سیاست پہ لکھوں تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں اورہاتھوں کی انگلیاں بین کرتی ہیں کہ کیا وجہ ہے اس ملک میں چند ایک بھی ایسے سیاسی راہنما پیدا نہیں ہوپائے ہیں جنہیں کم سے کم گفتگو کرنا آتی ہو۔ملکی جمہوریت کو خطرے میں کہنے والے نواز شریف اور عمران خان کی حکومتیں ان کے بیانیہ سے ختم ہوئی ہیں اس لیے میرانقطہ نظر یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوںہر مہینے کسی ایک ادبی نشست میں ’’خاموشی سے‘‘ بیٹھنے کا پابند کیا جانا چاہے۔تا کہ یہ گفتگو کا ہنر جاسکیں اور مستقبل میں انکے بیانات انہیں مشکل میں نہ ڈالیں۔ اس وقت ملک میں الیکشن کا بگل بج چکا ہے ایک طرف نون کا جنون ہے تو دوسری طرف خان کے ٹائیگر ہیں ۔ہر دوسرے دن ایک سے ایک بڑا جلسہ منعقد ہورہا ہے ۔شدید گرمی کے باجود لوگ ان جلسوں میں شرکت کررہے ہیں ۔ایک بات جو میں نوٹ کی ہے کہ اس بار عمران کے جلسوں میں ماڈرن خواتین کی بجائے گھریلو خواتین اور بچے زیادہ شرکت کر رہے ہیں ۔جو اس کی عوامی مقبولیت کا مظہر ہے ۔آصف زرداری اپنی آخری عمر جیل کی کال کوٹھڑیوں کی بجائے اپنے آرام دہ محلات میں گزارنے کے خواہاں لگتے ہیں اس لیے ان کی کوشش ہے کہ یہ حکومت چلتی رہے۔حکومت چلے اور انکے خلاف بنے سب مقدمات ایک کے بعد ایک ختم ہوجائیں۔ایسے میں اگر ملک میں مہنگائی کا طوفان آتا ہے تو اس کی ذمہ داری نون لیگ کے سر ڈال کے اگلے الیکشن میں کچھ کامیابی کی کوشش کی جاسکے۔تجزیہ نگاروں کے مطابق آصف علی زرداری نے نون لیگ کی کشتی بھنور میں لا پھنسائی ہے ۔مہنگائی کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ آنے والے سالوں میںمہنگائی دنیا کا مقدر ہو چکی ہے ۔روس یوکرین کی جنگ میں شدت آرہی ہے اور یہ جنگ یورپ کے دیگر ملکوں تک پھیلنے کے اشارے ملنا شروع ہو چکے ہیں ۔ روس نے جرمنی سمیت دیگر کئی ملکوںکو گیس سپلائی بندکرنا شروع کردی ہے جس کے نتیجے میں یقینا یورپ میں اقتصادی بحران پیدا ہو سکتا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن