موسمی اور سیاسی درجہ حرارت میں آئے روز کی نت نئی خبروں میں اس خبر کی گرمی اور حدت کم لوگوں تک پہنچی ہوگی کہ اس قیامت خیز گرمی میں جنوبی پنجاب کے صحرائے چولستان میں موت کا رقص جاری ہے جہاں زندگی کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے جانوروں کے ساتھ ساتھ انسان بھی زندگی سے ہاتھ دھوتے جارہے ہیں۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے باسی جان بلب ہیں کئی پالتو جانور پیاس کی تاب نہ لا کر موت کے منہ میں جارہے ہیں اور پیاسے چولستان پر ویرانی نے اپنے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ حکومتوں کی تبدیلی، اپوزیشن کے جلسوں اور سیاسی جوڑ توڑ کی خبروں میں ایسی خبریں کہاں گرم ہوتی ہیں۔ ٹھنڈے ٹھاراے سی لگے کمروں میں حکومتی جوڑ توڑ اور سیاست کے میدانوں میں زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں میں چولستان کے صحرا کی گرمی حدت اور بے بسی کا کسی کو احساس نہیں ہے۔ الیکٹرانک میڈیا نئے پاکستان اور پرانے پاکستان کا موازنہ کرنے میں دن رات ایک کررہا ہے۔ڈالرکی اونچی اڑان اور ملک میں روزبروز مہنگائی کا بڑھتا ہوا طوفان عوام کو بے چین کئے ہوئے ہے پیاس سے بلکتے ہوئے چولستان کے باسیوں کی نظریں اقتدار کے ایوانوں کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ چولستان میں ہونے والی تباہی کی داستانیں کوئی نئی نہیں ہیں۔یہاں سارا سال ہی بدحالی اور خوشحالی کا موسم رہتا ہے۔ بارشیں بھی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے مکین اسی طرح سسکتے رہتے ہیں۔ سہولتیں انکی دہلیز اور دسترس سے دور ہیں۔ کسی بھی حکومت نے چولستان کے صحرا کو گل وگلزار بنانے کی طرف توجہ نہیں دی ان صحرا نشینوں کو زندگی کی سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے کار چیپ ریلیوں کے تماشے دکھائے جاتے ہیں شکار کے شاہی شوق پورے کئے جاتے ہیں چولستان سے آبادی کے انخلاء کی خبریں بھی نئی نہیں ہیں اس کی تباہی اور ویرانی کی کئی بار نشان دہی کے با وجود کوئی شنوائی نہیں ہوتی یہاں کے باسیوں کے احتجاج کے باوجود اس صحرا کی طرف کسی نے نظر کرم نہیں کی اور چولستان کے باسی اکثر یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ’’وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پر برس گئیں۔ چولستان میں پانی کی فراہمی کیلئے اس وقت کئی اصلاحی تنظیمیں میدان میں اتری ہیں۔ چولستان میں پہلے سولر واٹر پراجیکٹ کا آغاز بھی کردیاگیا ہے۔لوگوں تک امداد بھی پہنچائی جارہی ہے لیکن یہ کام تن تنہا امدادی اور فلاحی اداروں کا نہیں ہے بلکہ اس کیلئے حکومت کو ترجیحی اور ہنگامی بنیادوں پرکام کرنے کی ضرور ت ہے۔ چولستان میں ہونیوالے موت کے رقص نے فضا کو اور بھی سوگوار بنادیا ہے۔ملک کے مخیر حضرات کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حلقوں اور بااختیار اداروں کو بھی اس طرف توجہ دیناہو گی اعلی عدلیہ کو بھی اس حوالے سے سوموٹو لینا ہو گا حکومتی اداروں کو چولستان کی حالت زارسنوارنا ہوگی جنوبی پنجاب کے بہت سے پسماندہ اضلاع میں ابھی تک پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کیا جا سکا پرانے اور نئے پاکستان کے نعرے لگانے والوں کو اس طرف بھی توجہ دینا ہوگی ہمارے میڈیا کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے چولستان کی محرومیوں اور مسائل کو اجاگر کرنا ہوگا ۔ اقوام متحدہ اور سول سوسائٹی کو بھی اس حوالے سے اپنا فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت ااگر مستقل بنیادوں پر چولستان کیلئے سہولتیں فراہم کرنے اور یہاں پر آبادکاری کے جدید منصوبے شروع کرے تو ہر سال گرم اور خشک سالی کے موسم میں ہونیوالے اس سانحے اور اسکی تباہ کاریوں سے بھی بچا جاسکتا ہے۔چولستان کے صحرا کی طرح اس وقت ملک میں ہر طرف ویرانی اور بے چینی کا راج نظر آرہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے روایتی حربوں اور طرز عمل کی وجہ سے عوام عدم تحفظ اور مایوسی کا شکار ہے ملکی معیشت روز بروز تنزلی کی طرف جارہی ہے۔ اعلیٰ اور بااختیار اداروں کو اس ساری صورتحال میں اپنا مثبت کردار اداکرتے ہوئے ملکی نظام کے اونٹ کو کسی کروٹ بٹھانا ہوگا۔ جنوبی پنجاب کا سیکرٹریٹ ابھی پوری طرح فعال بھی نہیں ہوا کہ حکومتی تبدیلی کی وجہ سے پھراسکے مستقبل کے حوالے سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ہر سیاسی جماعت اپنے سیاسی مقاصد اور الیکشن کے نعروں کے ذریعے اس خطے کیلئے الگ صوبہ کے قیام کے وعدہ کو پورا کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے وسیب میں ترقیاتی منصوبوں کا فقدان ہے اور عوام سیاست دانوں سے مایوس ہوتے جارہے ہیں۔جب یہاں کے سیاستدان اقتدار میں ہوتے ہیں تو بلندوبانگ دعووں کے باوجود اس خطے کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نہ ہونے کی بدولت ناکام ہو جاتے ہیں۔اب تو سیاسی بحران کی وجہ سے اس خطے کی محرومیوں میں اور بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہر بار یہاں کے باسی اقتدار کے ایوانوں کی طرف دیکھتے ہیں لیکن انکے ارمانوں پر اوس ہی پڑی رہتی ہے۔ بارش کے روٹھنے سے اس خطے کی تو جیسے بہاریں بھی روٹھ گئی ہوں۔ خشک سالی موسم کی گرمی حدت اور تپش نے رہی سہی کسر پوری کررکھی ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور گیس کی عدم فراہمی کانوحہ الگ ہے۔ ایسے میں چولستان کے غمزدہ مکین حکومت اور سیاستدانوں کی نظر التفات اور چولستان کی پیاس بجھانے کے منتظر ہیں۔